''چیخوں میں دبی آواز'' اور خاورچودھری
--پروفیسرڈاکٹرفرمان فتح پوری --(ستارۂ امتیاز)
اُردو اَدب سے وابستہ بہت سے ایسے ادیب وشاعراورافسانہ نگاروناول نویس ہیں جو شہری مراکز سے دُور مضافات میں خاموشی سے اپنے اپنے شعبوں میں سرگرم عمل ہیںاورتاوقتیکہ ان کی تحریریں پرنٹ میڈیایادیگرذرائع سے عا مة الناس تک نہ پہنچیں ان کا شخصی وعلمی تعارف وپس منظربھی سامنے نہیں آتا۔ خاورچودھری جوحضروضلع اٹک جیسے دُور دراز علاقے میں جہاں اکثریت ہندکو اورپشتوبولنے والوں کی ہے نہ صرف بطورصحافی ہفتہ وار(*)اخبارمیں اپنے صحافیانہ فرائض کی انجام دہی میں مصروف ہیں بلکہ سچی لگن سے اپنے کالموں، کہانیوں اور مختصر افسانوں میں''حالات حاضرہ '' ، انسانوں کے رویّے،باہمی سلوک،منافقانہ وجارحانہ صورتِ حال اورسیاسی و معاشرتی حالات و واقعات اور اہم بین الاقوامی حالات کی بھرپورعکاسی کرتے ہیں اس کے ساتھ ساتھ وہ شعری اظہارکے لیے ماہیے، ہائیکو اور واکا جیسی مقامی و جاپانی اصناف سخن کو بھی وسیلہ بنانے پر قدرت رکھتے ہیں ،جس کا اندازہ ان کی طبع شدہ کتب سے لگانا چنداں دشوار نہیں۔
زیرِ نظر کتاب''چیخوں میں دَبی آواز'' خاورچودھری کے افسانوں پرمشتمل ہے۔سترہ افسانوں پرمبنی یہ کتاب اس اعتبارسے ایک اہم کتاب ہے کہ اس میں شامل کم وبیش تمام افسانے اپنے موضوع و مواد اور اُسلوب وزبان کے لحاظ سے مصنف کی ایک بہت کامیاب اور قابل ستائش پیشکش قراردیے جاسکتے ہیں۔ان افسانوں میں مصنف نے اپنے گردوپیش میں رونما ہونے والے سیاسی و معاشرتی اور نفسیاتی حالات وواقعات ، سانحات وحادثات اورزمانے کے تغیرات کے نتیجے میں انسانی فکر،سوچ،شعور،احساس اور روّیوںمیں پیدا ہونے والی تبدیلیوں اور بین الاقوامی سطح پر ملکوں اور قوموں کے بدلتے ہوئے حالات وواقعات سے اپنی کہانیوں کے موضوعات کاانتخاب کیاہے۔ افسانہ''نیلاخون''؛ ''دقیانوسیت''؛ ''پرانامنظر''؛ ''کرپٹ ونڈوز''؛ ''عکس درعکس'' اور ''میں'' اسی زمرے میں آتے ہیں،ان تمام افسانوں میں اپنے گردوپیش کی زندگی اوراپنے سماجی حالات کی بڑی عمدہ،بھرپوراورسچی تصویرکشی کی گئی ہے۔
زندگی میں انسان کوکن برے اورکٹھن حالات سے گزرنا پڑتا ہے اوراپنوں ہی کے ہاتھوں اسے کیسے کیسے دُکھ اٹھانے پڑتے ہیں، افسانہ''نیلاخون'' اس حقیقت پر سے بڑی خوبصورتی کے ساتھ پردہ اُٹھاتا ہے۔بانوخاتون کی صورت میں افسانہ نگار نے معاشرے کی بے شمار ایسی خواتین کو پیش کیا ہے جو زندگی بھر اپنوں اورغیروں کے ہاتھوں ظلم وزیادتی برداشت کرتے کرتے بالآخر ایک دن وقت سے پہلے زندگی سے ہاتھ دھوبیٹھتی ہیں۔ہمارے معاشرے میں وقت کی پابندی اور اپنے فرائض کی بجاآوری کاخیال نہیں رکھا جاتا یہی سبب ہے کہ ہمارا معاشرہ نظم وضبط اور ترقی وخوشحالی سے محروم ہوتا جارہاہے۔افسانہ''میں''میںاسی جانب اشارہ کرتے ہوئے ایسے لوگوں کو دکھایا گیا ہے جو نہ توماحول کی صفائی اور پاکیزگی کاخیال رکھتے ہیں اور نہ ہی ان میں صحیح وقت پر اپنے فرائض منصبی کی ادائیگی کا احساس پایا جاتا ہے۔ افسانہ ''کرپٹ ونڈوز'' کا موضوع صحافیانہ زندگی کے پہلو کو پیش کرنا اورحقائق بیان کرنے پر معاشرے کی جانب سے صحافیوں کے ساتھ روا رکھے جانے والے افسوسناک سلوک کوپیش کرتا ہے۔صحافیوں کوسچ لکھنے اورسچ کہنے پر جن پریشانیوں اور مسائل سے گزرنا پڑتا ہے اُن کی بڑی دلکش تصویرکشی اس افسانے میں کی گئی ہے۔
مصنف کااندازتحریربڑارواںدواں،شستہ وشگفتہ ہے۔کسی قسم کا ابہام یا پیچیدگی نہیں ہے۔بڑی سے بڑی بات اور ہر قسم کا مضمون اپنے مخصوص اندازمیں پوری فن کارانہ مہارت سے بیان کر دیے ہیں۔کردارنگاری عمدہ اور معیاری ہے۔ وہ جامداوربے جان کرداروں کے بجائے زندہ اورمتحرک کرداروں کے ذریعے اپنی کہانی کے واقعات کو آگے بڑھاتے ہیں اور ان کرداروں کے ذریعے نہ صرف زندگی، ماحول اور معاشرے کے خارجی مناظرومظاہر کوبیان کرتے ہیں بلکہ ان کے ذریعے معاشرے میں بسنے والے لوگوں کی داخلی وباطنی زندگی کے بہت سے گوشوں کو بے نقاب کرتے ہیں۔
خاورچودھری اس اعتبارسے ایک بہت کامیاب افسانہ نگارقراردیے جاسکتے ہیں۔ یقین ہے کہ اُردوافسانے کی تاریخ میں اُن کا نام تادیرزندہ رہے گا۔
(* ہفت روزہ تیسرارُخ)
(ماہنامہ اخبارِ اُردو۔جون2008ئ)
محمدحامدسراج--
خاورچودھری کاتعلق فن افسانہ نگاری کے اس قبیلے سے ہے جوسوزِ دروں کے سمندر میںاُترکردرد کی سیپیاں ُچن لیتا ہے۔ افسانہ نگار کی تخلیقی آنکھ صرف ظاہری منظروں کو Capture نہیں کرتی بلکہ وہ باطنی آنکھ سے معاشرے میں بسنے والے کرداروں کے Inner Selfمیں اُتر کر وہ منظرمصورکرلاتی ہے جہاں تک عام شخص کی نگاہ نہیں پہنچ پاتی۔
خاورچودھری کے من میں جوVideo Camera فٹ ہے جب وہ قلم کی آنکھ سے کرداروں کے باطنی منظر Picturise کرتا ہے تو حیرت انگیز طورپر قاری تحیر کے آسمان پر دھنک رنگوں میں اپنا رنگ تلاش کر لیتا ہے۔افسانے میں منظر نگاری کے ساتھ ساتھ انفرادی اور معاشرتی دکھ بیان کرنا شایدآسان ہو لیکن کرداروں کی باطنی کیفیات کو Personifyکرنا مشکل ترین مرحلہ ٹھہرتا ہے اور اسی مرحلے سے خاور چودھری کامیاب گزرے ہیں۔
''چیخوں میں دبی آواز'' میں شامل افسانے انسان کے اُن رویوں کے عکاس ہیں جن سے انسانی سرشت بے نقاب ہوتی ہے۔ رویہ کیسے،کہاںاور کیوں کرانسانی زندگی اور ماحول میں قلوب کو زخمی کرتا اور معاشرے میںناسورپھیلاتا ہے اُسے خاورچودھری نے اپنے قلم سے اَمر کردیا ہے۔یہ افسانوی مجموعہ افسانوں کے انبار میں محض ایک اضافہ نہیں بلکہ ''چیخوں میں دبی آواز '' اُردوافسانے کی گم ہوتی قدروں کی بازیافت ہے۔ Readability اس کتاب کا جزوِ اعظم ہے کہ خاورچودھری کا افسانہ قاری کودوران مطالعہ مکمل گرفت میں رکھتا ہے۔ آپ کتاب کا مطالعہ کیجیے ہر افسانہ اپنے اثبات اور جواز کی خود گواہی دے گا۔
چیخوں میں دَبی آواز
--پروفیسرہارون الرشید --
آدمی عموماً جب لکھنا شروع کرتا ہے تو اسے اکثر اوقات یہ احساس نہیں ہوتا کہ وہ کیا لکھتا ہے اور کس لیے لکھتا ہے۔ اس سے اس کی بے چینی بڑھتی ہے۔وہ کبھی جملے بناتا ہے،کبھی قرطاس پرآڑی ترچھی لکیریں کھینچتا ہے اور کبھی لفظوں کے درمیان اپنے اندرکی بے چینی اور اضطراب کو پھیلانے کی کوشش کرتا ہے۔ اس سے اس کا کیتھارسس تو ہو جاتا ہے لیکن اسے حقیقی طمانیت نہیں ہوتی۔طمانیت کا پہلا زینہ کام کی نوعیت طے کرنا ہے،جب کام کا تعین ہوجاتا ہے تو سوچ، ذہن اور خیال اعتدال پہ آجاتے ہیں۔یہیں سے ایک ادب کی منزل بھی شروع ہوتی ہے۔ آدمی نے جو کچھ کرنایالکھنا ہے اس کا فیصلہ وقت اور مقدرکرتاہے اور جوکچھ طے ہے وہ طے ہے، اس میں تبدیلی نہیں ہوتی۔ہم تو اکثریہی خیال کرتے ہیں کہ ہم خود اپنی منزل کا راستہ متعین کرتے ہیں ، حالاںکہ ایسا نہیں ہے۔
وہ مجھ کو بتا دیا گیا ہے
جو لوحِ نصیب پر رقم ہے
وہ لوگ بڑے خوش نصیب ہوتے ہیںجواس کارگہِ شیشہ گری میں بہت کچھ کرتے ہیں، یوں بھی ہوتا ہے کہ بعض لوگوں کا بہت سارا کام بھی کسی کو نظر نہیں آتا اور بعض کا تھوڑا سا کام بھی انہیں زندہ جاوید کر دیتا ہے،یہ سب قسمت کی باتیں ہیں اور قسمت ایک ایسی دیوی ہے جو ہر کس و ناکس پر مہربان نہیں ہوتی۔ کسی کو بہت زیادہ نواز دیتی ہے اور کسی کے دامن میں چند کھوٹے سکے بھی نہیں آتے۔
یہ انسان کی سخت جانی ہے کہ وہ مقدرکے ساتھ بر سر پیکار ہے،اس کے حوصلے کی داد دینی چاہیے۔شہرت اور ناموری کاراستہ سنگلاخ چٹانوں میں چھپا ہوا ہے،اکثرلوگ اُدھر کارُخ کرتے ہیں،کچھ شروع ہی میں دل ہاردیتے ہیں اور کچھ آخر تک چلنے کا عزم کر لیتے ہیں۔
خاورچودھری بھی ایک ایسے ہی کردارکانام ہے جو بہت سارے کام کرتا ہے اور مسلسل ادب کے اس بھاری پتھر کو اٹھائے ہوئے ہے جسے زیادہ تر لوگ چوم کر راستے میں ہی چھوڑ دیتے ہیں۔
خاورچودھری شاعر بھی ہیں، افسانہ نگار بھی اورصحافی بھی ، اور میری دانست میں جو ان تینوں شعبہ ہائے جات میں اپنی توانائیاں صرف کرتا ہے اس کے حوصلے کی بھی تعریف کرنی چاہیے اور اس کی محنت کو بھی خراج تحسین پیش کرنا چاہیے۔ انھوں نے سب سے پہلے اپنے کام کا تعین کیا اور اپنے اندر کے آدمی کو مطمئن کرنے کے لیے شاعری، افسانہ نگاری اور صحافت کا جامہ پہن لیا۔ ان کے ان تینوں میدانوں کے تجربات ان کے افسانوں کی پہلی کتاب ''چیخوں میں دبی آواز '' میں نظر آتے ہیں۔17۔افسانون کایہ سفر ''نیلا خون'' سے شروع ہوتا ہے اور ''آزادی '' تک پہنچتا ہے لیکن یہ سفر اور جدوجہد ان کاپہلاپڑاؤ ہے۔ان کے افسانوں کے اندر تخلیقی محنت اورعرق ریزی نہایت نمایاں ہے اور یہ ان کے اخلاص کی علامت ہے جوانھیںاس صنف میں کھینچ لایا ہے۔''نیلا خون'' میں بانو خاتون کا کردار قدم قدم پر ہماری سوسائٹی میں نظر آتا ہے۔ یہ ہر گھر کی کہانی ہے جو یہ بتاتی ہے کہ ہم کدھر جا رہے ہیں۔
''کرپٹ ونڈوز'' کو بھی دوسرے زاویے سے دیکھیں تواس میں بھی وہی معاشرتی عذاب لہراتے ہوئے نظر آتے ہیں جنھوں نے ہماری زندگیاں اجیرن کر رکھی ہیں۔اس کی ترتیب اور اس کاکلائمکس نہایت عمدہ ہے۔
خاورچودھری شاعربھی ہیں اورصحافی بھی۔ان کے افسانوں میں ہلکی ہلکی شاعرانہ فضا بھی کروٹیں لیتی ہوئی نظر آتی ہے۔ صحافی ہونے کے ناطے ان کی معلومات نہایت وسیع ہیں ان کا VISIONنہایت پھیلا ہوا محسوس ہوتاہے۔ عموماً افسانے کے حوالے سے دیکھا گیا ہے کہ افسانہ لکھنے والوں کی ملکی وغیرملکی سطح کے حوالے سے معلومات اتنی زیادہ نہیں ہوتیں، لیکن خاورچودھری کے حوالے سے یہ دیکھ کربے پایاں مسرت ہوتی ہے کہ انھوں نے صحافتی باخبری کو اپنے افسانوں میں نہایت خوبصورتی سے سمویا ہے۔ان کے زیادہ تر افسانے اگرچہ مختصر ہیں لیکن انھوں نے اس اختصار میں بھی وہ سب کچھ نہایت مہارت کے ساتھ کہہ دیا ہے جو وہ کہنا چاہتے ہیں۔
'' سانسوں کی مالا''؛''سوداگر'' اور''کشکول'' بنت،ساخت اور DIMENSION کے حوالے سے نہایت خوبصورت افسانے ہیں۔ ان کے افسانوں میں ان کی سوچ کی وسعت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ وہ کیسے آدمی اور معاشرے کے باطن میں اُترجاتے ہیں۔خاورچودھری انسانی فطرت کا نہایت گہرا ادراک رکھتے ہیں،انھوں نے اپنے افسانوں میں جہاں آج کے انسانوں کے دکھ کو دوردورتک پھیلا دیا ہے وہاں انھوں نے ان میں اپنی قدیم روایات کی جڑوں کو بھی ضم کر دیا ہے۔انھوں نے اپنے افسانوں میں یہ چیز دکھا دی ہے کہ اپنی تہذیب اور تمدن سے کٹ جانے والوں کا کیا حال ہوتا ہے۔
'' چیخوں میں دبی آواز'' میں اس آزادی کے سائے بھی اپنے ہونے کا پتا دیتے ہیں جو پچھلے ساٹھ سالوں میں ہم سے کھو گئی ہے۔ اس میں ہماری گم گشتہ روایات کا خون بھی شامل ہے اوران سے جڑے رہنے کاعہد بھی۔
OOOO
کہانی شناس
--ملک مشتاق عاجز--
تخلیق آدم کے باب میں خود خلّاقِ اعظم اورصنّاعِ ہر دو عالم کا دعویٰ ہے کہ اُس کا یہ شاہکار ُحسنِ تخلیق کا بہترین نمونہ ہے مگر ہم دیکھتے ہیں کہ آدم زاد کہیں خیرِ کثیر کی علامت ہے تو کہیں اسفل السٰفلین، کہیں حسن وجمال کا مظہر ہے تو کہیں مجسم قباحت۔ تو کیا دعویِ خالق (نعوذباللہ) جھوٹ یا غلط تھا-----؟نہیں ، ہر گز نہیں بنانے والے نے اس فن پارے کی ساخت اور تراش خراش میں بیک وقت یکسانیت و مشابہت اور نیرنگی و ندرت کا وہ حیرت انگیز اور بے مثل کمال دکھایا ہے کہ ہر ہر انسان اپنے اجزائے ترکیبی اور اُن کی بنت جڑت میں یکساں ہونے کے باجود ایک دوسرے سے کسی نہ کسی طور مختلف ہے، ظاہری شکل و صورت میں بھی اور اپنے ہر ہر فعل میں بھی۔ انسان وہ خود کار آلہ ہے جس کے کل پرزے اپنے جیسے ہر دوسرے جتنے اور اُسی جیسے سہی مگرسب کے اعمال و افعال اور ان کا ردّ ِعمل مکمل طور پر ایک جیسا نہیں۔دستِ قدرت نے کارخانۂ کائنات میں ایسے اَن گنت اور لاتعداد خود کار آلے بنا کرکارگاہِ حیات میں چھوڑ دیے ہیں۔ ہر خود کار آلہ، ہر انسان اس میدانِ عمل میں مصروفِ کار ہے۔ ہرایک کے کل پرزے ایک انتہائی پیچیدہ مشینی نظام میں اسی طرح نصب ہیں کہ ہمہ وقت اس آلۂ کار کو رواں دواں رکھتے ہیں مگران پر ایک حساس اور خود مختار نگران بھی مقرر کرد یا ہے جو اس مشین کو اپنے اشاروں پر چلاتا اور اپنی مرضی کے نتائج حاصل کرتا ہے۔اس کے اشاروں پر عمل پیرا ہو کر یہ خود کار آلہ جسے انسان کہتے ہیں، کہیں خوش گوار اور پسندیدہ نتائج کا حامل ہوتا ہے تو کہیں ناگوار اور ناپسندیدہ نتائج کا۔ یہی خود مختاری کہیں حسن وجمال کی تخلیق میں مصروف ہے تو کہیں بد صورتی اور بد نمائی کا باعث۔
اس پیچیدہ مگر انتہائی نازک ونفیس مشین میں وہ عدسے نصب ہیں جو گردو پیش کے مناظر کی متحرک تصاویر بناتے ہیں۔ وہ پردۂ شفاف نصب ہے جس پر یہ تصاویرنقش ہوتی ہیں اور وہ باریک بین تجربہ گاہ قائم ہے جہاں ان تصاویرکے حسن و قج کا تجزیہ ہوتا ہے۔اَن گنت انسانوں کی آنکھیں نور بصارت سے روشن اور اُن کے عدسے شفاف ہیں، لاتعداد ذہنوں کے پردے آنکھوںکے کیمرے سے لی گئی تصاویر کا عکس محفوظ رکھنے کے اہل ہیں اور بے شمار انسانوں کے دل ان نقوش کے حسن وقج کے تجزیے کی صلاحیت رکھتے ہیں جب کہ بے حد و بے حساب وہ لوگ بھی موجود ہیں جن کی آنکھوں پر غفلت کے پردے پڑے ہیں اور اُن کے عدسے اچھے برے مناظر کے واضح عکس اُتارنے کے قابل نہیں رہے، جن کے ذہنوں پر کثافتوں کی تہ جمی ہے اور وہ کسی تصویر کاواضح اور نمایاں نقش نہیں اُبھار پاتے، جن کے دل زنگ آلود ہو چکے ہیں اور وہ خیر و شر کاتجزیہ کر کے خوب صورتی و بد صورتی میں تمیز کرنے کی صلاحیت کھو بیٹھے ہیں۔
مؤخرالذکر وہ لوگ ہیں جن کے ضمیر سو رہے ہیں یا مر چکے ہیں اور وہ اپنی نگرانی میں کام کرنے والی خود کار مشین سے بہ طریق احسن کام لینے کے قابل نہیں رہے۔یہی وہ لوگ ہیں جو اپنے اعمال وافعال سے اول الذکرلوگوں کو وہ تصاویر، وہ سامان اور وہ مناظر مہیا کرتے ہیں جن کی موجودگی زندہ ضمیر اور روشن ضمیر لوگوں کو مواقع فراہم کرتی ہے کہ وہ خیر کو شر سے الگ اور خوب صورتی کو بدصورتی سے جدا دیکھ سکیں،بدصورتی سے دامن کش ہو کر اپنے من کی دنیا میں حسن و جمال کے نقوش اُجاگر کرسکیں،حسن وجمال کی پرورش کر سکیں،مزید حسن تخلیق کر سکیں ، اُس کی ترویج کر سکیں اور دوسروں کو بانٹ سکیں۔
اس جہانِ ہست وبود میں لاکھوں کروڑوں بلکہ اربوں کھربوں روشن ضمیر ہوئے ہیں اور اب بھی ہیں مگر ان میں کتنے ہیں جو تجزیہ کاری کے علاوہ تجزیہ نگاری بھی کر سکتے ہیں؟ کتنے ہیں جو حسن وجمال کو عام کرنے کے ساتھ ساتھ بدصورتی اور بدنمائی ، ظلم وتشدد، ناانصافی اور بے راہ روی کی نشاندہی کرنے کا حوصلہ ، اظہار کا سلیقہ اور تشہیر کی جرأت بھی رکھتے ہوں؟ کتنے ہیں جنھیں جذبات اور حقائق کے اظہار کے لیے لفظوں کا خزانہ دستیاب ہے اور الفاظ کو برتنا جانتے ہیں؟ کتنے ہیں جو ظالم کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کلمۂ حق کہنے کا جگرا رکھتے ہیں؟-----بہت کم----- بہت ہی کم۔کچھ مصورہیں جواپنے مو قلم سے رنگ بکھیرتے اورحسن وجمال کی دل کشی کے پردے میں اس کائنات میں بکھرے دُکھ درد اور دامنِ انسانیت پر لگے داغ دھبے تصویرکرتے ہیں،کچھ شاعر ہیں جو جمالِ یارکو بہانہ کرکے کائنات کے حسن وجمال کو شعر کرتے اورغمِ جاناں کے لبادے میں غمِ دوراں کونظم کرتے ہیں اورکچھ کہانی نگار اور افسانہ نویس ہیں جو گردوپیش کے مناظر اور واقعات سے حقائق کشید کرتے اور تلخ حقائق کو خوبصورت الفاظ میں پرو کر صفحۂ قرطاس کے سپرد کرد یتے ہیں۔یہ لوگ ، یہ بہت کم لوگ۔ یہ بہت ہی کم یاب لوگ،اہلِ احسان بھی ہیں اور اہلِ جمال بھی کہ اندھیرے اور بدصورتی کا راستہ روکے کھڑے ہیں۔بدصورتی کو بے لباس اور مکروہ چہروں کو بے نقاب کیے جاتے ہیں۔دیئے جلائے جاتے ہیں، چراغ بکف (*) روشنی بکھیرے جاتے ہیں اور گم راہوں کو سیدھاراہ سمجھائے جاتے ہیں۔خوش بخت اور باہمت ہیں یہ لوگ۔یہ لوگ جن میں ایک خاورچودھری بھی ہے۔خاورچودھری جوصحافی کی نگاہ سے دیکھتا ہے،کہانی نگار کے ذہن سے سوچتا ہے اور افسانہ نویس کے قلم سے لکھتا ہے۔
خاور کہانی کار نہیں،کہانی شناس ہے۔وہ کہانی تراشتا نہیں بلکہ تلاشتا بھی نہیںوہ کہانی کے پیچھے نہیں بھاگتا ، کہانی خود اس کاتعاقب کرتی ہے۔وہ تو بس اُسے سنوارتااوردوسروں کو سناتا ہے۔اُس کے حواسِ خمسہ بہت حساس ہیں۔ اُس کی چشمِ بصیرت وہ عدسہ ہے جوباریک سے باریکترکی تصویر اُتار لیتا ہے، اُس کاذہن وہ روشن آئینہ ہے جس میں بننے والا عکس بے عیب ہوتا ہے، روشنی کی شعاعیں اُس کے آئینے سے جس زاویے سے بھی ٹکراتی ہیں اُسی زاویے سے منعکس ہو کر آئنہ در آئنہ،عکس در عکس سفر کرنے لگتی ہیں اور دیکھنے والے کویوںحصار کرلیتی ہیںکہ حقیقت سے چشم پوشی کا امکان ہی نہیں رہتا۔ اُس کا ڈش انٹینا اتنا زودحس ہے کہ کوئی آہٹ،کوئی جنبش اُس کی گرفت سے باہر نہیں،اُس کی چشمِ بینا حال کا جائزہ لیتی ہے توچشمِ بصیرت ماضی میں جھانکتی ہے اور یوں وہ ماضی و حال کاجائزہ لے کراپنی چشمِ تصورسے مستقبل کا خاکہ بناتا ہے۔وہ صدائے بازگشت میں بھی کہانی ُسن لیتا ہے۔اُس نے چنگیزخان کو دیکھا ہے نہ ہلاکو ،کو مگر ماضی کی خون آلودتاریخ سے اُن کے ہاتھوں بہائے گئے انسانی خون کی حدّت،اُن کے ڈھائے ہوئے مظالم کی شدت اور مظلوموں کی آہ وبقا کشید کر لیتا ہے اور ایک چیختی چلاتی،احتجاج کرتی کہانی اُس کے افسانے کا رُوپ دھار لیتی ہے۔
وہ زندہ ضمیر کی آواز ہے،خیر وشرکی آویزش پر اُس کی گہری نظر ہے۔اس جنگ میں کسی مقام پر،کسی بھی وقت کوئی بھی جیتے،کوئی بھی ہارے کہانی جنم لیتی ہے۔کہانی جنم لیتی رہے تو چلتے چلتے کہانی نگارتک آپہنچتی ہے اور خاور کا دامن تھام لے تو وہ اُسے اپنے اسلوب میں لکھ دیتا ہے۔ اب آپ اُس کی تحریر کو کالم کہہ لیں،کہانی مان لیں یا افسانہ،آپ پر منحصر۔ خاور دُکھ کے موتی ُچن کر کاغذپربکھیر دیتا ہے۔آپ انہیں پلکوں سے ُچن کر دل میں رکھ لیں یا کالم اور افسانہ کی بحث میں اُلجھے رہیں۔آپ کی مرضی۔
اُسے شریانوں میں بہنے والے خون کا رنگ دکھائی دیتا ہے۔معاشرے کے کسی کردار کی رگوں میں دوڑتے خون کارنگ نیلا ہو تو وہ اس کردار سے تعامل کرنے والے دوسرے کرداروں کا جائزہ لیتا ہے کیوں کہ وہ نیلے خون کی خصلت سے واقف ہے۔'' نیلا خون'' اُسے اپنی طرف متوجہ کرتا ہے اور دوسرے کردار اُسے وہ کہانی سنا دیتے ہیں جو خون کے منفی رویّے اور سرد مہری سے جنم لیتی ہے۔اُس کی ونڈوز کرپٹ نہیں ہوتی مگروہ جانتا ہے کہ ایسا تب ہوتا ہے جب حق شناس حق گوئی کا ارادہ باندھتا ہے،جب باطل کو بے نقاب ہونے کا خدشہ لاحق ہوتاہے،جب حق کے ہاتھ آئینہ ہوتا ہے اور باطل آنکھ ملانے کی جرأت نہیں کرتا۔
خاور صرف منظر نگاری ہی نہیں کرتا بلکہ علامت نگاری بھی جانتا ہے۔وہ چاہے تو ''بوڑھا درخت'' اس کی کہانی کا مرکزی کردار بن جائے۔بدلتے موسموںکی شدت جھیلنے والا، برس ہا برس دوسروں کو چھاؤں بخشنے والا۔اپنے سائے میں نسلوں کو پروان چڑھتے دیکھنے والا، تندوتلخ تجربوں سے گزرنے والا بوڑھا درخت،جورشتوں کے ٹوٹتے،ان کے تقدس کو پامال ہوتے، اخلاقی اورانسانی اقدارکومٹتے دیکھتا ہے۔معاشرتی قدروں کا امین مگرزخم خوردہ اور شکوہ بہ لب بوڑھا۔
'' میں '' کے عنوان تلے لکھے ایک افسانے میں خاور اپنی زندگی کے ایک دن کا روزنامچہ مرتب کرتا ہے جو پاکستانی معاشرے کے ہر فرد کا روزنامچہ اور ہر روز کی ڈائری کا ورق ہے۔صبحِ صادق کے وقت بستر سے اُٹھ کر رات سونے کے لیے بسترپرجانے تک ہر پل اور ہر گام پیش آنے والے چھوٹے چھوٹے واقعات اور مشاہدات کو لکھتے ہوئے بیسیوں معاشرتی برائیاںگنواتا ہے۔روز مرہ درپیش ان معاشرتی عیوب کو ایک مسلسل کہانی میں صیغہ واحد متکلم یعنی '' میں'' کی زبان سے بیان کرکے آخر میں اپنی '' میں '' کی نفی کرنا ،ایک مہذب شہری کی طرح اس کی ذمہ داری صرف دوسروں پر ڈالنے کے بجائے خود کو ہی اس کا ذمہ دارقرار دینا اور غیرذمہ دار رویّے کے حامل معاشرے پر انتہائی مہذب طنزکرناخاور کی فن کارانہ صلاحیتوں کا بیّن ثبوت اور اُس کی جاگتی آنکھوں،سوچتے ذہن، تڑپتے دل اور زندی ضمیر کی ناقابلِ تردید دلیل ہے۔
کفایت شعاری اور سادگی جیسی اعلیٰ انسانی اور اسلامی اقدار کو''دقیانوسیت'' قرار دینے والی تصنّع پسند،فضول خرچ اور خودنمائی کے مرض میں مبتلا نئی نسل کو جس خوب صورتی اور مہارت سے خاور نے آئینہ دکھا یا ہے،اُسی کا حصہ ہے۔ اماں بی اور فضیلت بی بی کے کرداروں کو جو اعتبارخاور کے قلم نے بخشا ہے وہ کسی مبلغ یا خطیب کے بس میں کہاں؟ یہ اور بات ہے کہ کسی علی احسن،علی محسن یا حمنہ کو ٹی وی اور کمپیوٹرسے فرصت ہی نہ ملے اور اُن کے گھر میں کتابیں پڑھنے کا رواج ہو نہ خاور چودھری کا افسانوی مجموعہ۔
وہ حقیقت کو اخباری کالم میں بھی لکھنا جانتا ہے مگر یہ بھی جانتا ہے کہ افسانے کے نام سے حقیقت کیسے لکھتے ہیں۔ وہ کسی مسلح آپریشن کی حقیقت کو گولیوں کی آواز،بارود کی ُبو اور لوگوںکے ناموں سے نہیں سجاتابلکہ واقعات کی صحافتی جزئیات نگاری کے بجائے'' چیخوں میں دبی آواز'' کوسنتا،اُس کا کرب محسوس کرتا اور سناتا ہے۔باقی ماندہ واقعات پامال ہوتی مساجداورمسمار ہوتے مدرسے خود کہہ دیتے ہیں اور یہی وہ بات ہے جو افسانے کو اخباری کالم سے ممیز کرتی اور ایک کالم نگارکو افسانہ نگار بھی ماننے کا جوازمہیاکرتی ہے۔
اُس کادل''سانسوں کی مالا'' میں پروئے ہر دکھ کو یوں محسوس کرتا ہے جیسے ہر انسانی دکھ اور درد اُسی کی میراث ہو۔ دنیا میں دوسروں پر ڈھائے جانے والے مظالم کو'' عکس در عکس'' دیکھتا ہے،مسلم اُمہ کے خلاف مذموم سازشوں کی کڑیاں ملاتا اور مظلوموں کی وکالت کرتا ہے،عالمی سیاسی منظرنامے پر نظر رکھتا اور اس تناظر میں دورِ حاضر کے دکھوں کو افسانہ کرتا ہے۔خود کشی کرنے والے کو'' گم راہ'' قرار دینے والوں کو برابر کامجرم جانتا ہے اور یاد دلاتا ہے کہ وہ جس نے اپنی زندگی اپنے ہاتھوں ختم کر لی اکیلا ہی زقوم پینے کا سزاوار نہ ہوگا۔وہ امریکا کے دست نگراورزیرِ نگیں کم زور ملکوں کو بجاطور پر ''روبوٹ'' کہتا ہے۔ سوچتا ہوں اُس نے کٹھ پتلی کیوں نہ کہااُن کو؟شایداس لیے کہ وہ آج کا افسانہ نگار ہے،آج کی سائنسی دنیا اور ترقی یافتہ زمانے کا۔نئے اور جدید دور کا۔ انفارمیشن اور ٹیکنالوجی کے دور کا۔اُس دور کا جس دور میں مادہ ترقی یافتہ اور روح زوال پذیر ہے۔ جس دور میں انسانیت زخم خوردہ اور انسان بے حس مشین ہے۔
کالم ہو کہ کہانی ہو،کہانی ہو کہ افسانہ، وہ مجبور اور مفلس مگر خوددار وغیّور انسانوں کی دکھ بھری کہانی محسوس کرتا ہے اور لکھتا ہے تو مملکت خداداد کے اربابِ بست وکشاد کے دعووں کاپول کھول دیتا ہے،جو''کشکول'' بھی اٹھائے پھرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ انہوں نے کشکول توڑ دیا ہے۔وہ سچی کہانیاں لکھتا ہے چاہے کسی کہانی کو''جھوٹی کہانی'' کاعنوان ہی دے دے۔ وہ کہانی ختم کرتا ہے آزادی جیسے حسین خواب کی بھیانک تعبیر پر۔آزادی کی خاطرقربانیاں دینے والے آنسو بہاتے ، مزارِ قائدپربیٹھے ایک بوڑھے پر جوماضی وحال کی زندہ کہانی کا عنوان ہے۔
کہتے ہیں افسانے کا ایک پلاٹ ہوتا ہے،کردار ہوتے ہیں،مکالمہ ہوتا،تجسّس ہوتا ہے، منظرنگاری ہوتی ہے اور چونکا دینے والا اختتامیہ ۔ میں پوچھتا ہوں کیا سچ کہنے اور لکھنے کے لیے بھی کوئی سانچہ،کوئی فرمہ،کوئی فارمولا اور کچھ ضابطہ ہوتا ہے؟ سچ تو سچ ہوتا ہے،کوئی جب چاہے،جیسے چاہے بول دے مگر ہر کوئی سچ بولنے کا حوصلہ کہاں رکھتاہے۔ایسے سرپھرے ، دل جلے اور من چلے تو خال خال ہی ملتے ہیں اور انہی میں ایک کا نام ہے خاور چودھری، شاعر،کالم نگار، کہانی کار اور افسانہ نویس خاور چودھری۔
(*)چراغ بہ کف کالموں کا مجموعہ
( 11 اپریل2008ء کوتحصیل کونسل اٹک میں
''چراغ بہ کف'' اور''چیخوں میں دبی آواز''
کی تقریب رونمائی کے موقع پر پڑھا گیامضمون)
چیخوں میں دبی آواز
--ناصر شمسی--
خاورچودھری پیشے کے اعتبارسے ایک صحافی ہیں ۔ ''چیخوں میں دبی آواز'' ان کاپہلا افسانوی مجموعہ ہے جو سترہ افسانوں پر مشتمل ہے۔ صحافی ہونے کے ناطے ہمارے ماحول میں پلنے والے ناسور اور ان کے نتیجے میں نمودار ہونے والے المیے خاورچودھری کے شعور کی دسترس میں ہیںاور ان کے قلم کی گرفت میں بھی۔معاشرتی نا ہمواریوں نے جس قدر تیزی سے ہماری سوسائٹی میں اپنے پنجے گاڑے ہیں اور روزمرہ کی زندگی کو جس طرح چیچک زدہ کیا ہے خاور کے قلم کی جراحی نے '' چیخوں میں دبی آواز '' میں آشکار کرنے کی سعی کی ہے۔ان کے افسانوں کے عنوانات مثلاً نیلاخون،کرپٹ ونڈوز،Impostor، روبوٹ، کشکول،زہر اور آزادی وغیرہ بھی ہمیں مصنف کے صحافتی مشاہدات اور تجربات کا اشارہ دیتے ہیں۔
ہم سب جانتے ہیں افسانہ زندگی کی عکاسی اور تشریح کرتاہے مگراس کایہ مطلب ہرگز نہیں کہ مصنف افسانے میں زندگی کا وہ عکس دکھائے جو وہ چاہتا ہے ( چاہے وہ عکس کتنا ہی حسین رُخوں سے سجا ہو) بلکہ زندگی جیسی بھی ہو وہ نظر آنا چاہیے۔گو خاورچودھری نے اس پر عمل کرنے کی سعی کی ہے مگر زندگی کی سنگینی کو کاندھے پر ڈالے کبھی کبھی ایک کالم نگار اچانک قاری کے سامنے آ جاتا ہے۔دراصل خاور کاقلم نہ صرف موضوعات کا احاطہ کرتا ہے بلکہ کردار نگاری اور قصے کے بہاؤ کو صحیح رُخ پر رکھنے میں کامیاب نظر آتا ہے۔ خاور کے یہاں افسانے کے ابتدائی دور،تقسیم سے پہلے اور پچاس کی دہائی کے دور کے اُردو افسانوں جیسی رومانویت نہیں ہے۔وہ نظاروں اور چاند ستاروں کی نہیں بلکہ کھیتوں کھلیانوں، گلی محلوں اور اپنی زمین پر بسنے والے انسانوں سے گفتگو کرتے ہیں اور انسانیت سے جڑی اخوت اور تفریق سے پاک اخلاقی اقدار کو معاشرے میں توازن کا ذریعہ خیال کرتے ہیں۔
'' چیخوں میں دبی آواز'' دراصل ا ن کی اندرونی پکار کی آواز معلوم ہوتی ہے۔بلاشبہ زندگی کی تلخیاں ذہنِ انسانی کی بیخ کنی کا سبب بنتی ہیں مگر افسانے کا اعجاز یہ ہے کہ وہ فکری ہمہ گیریت کے ساتھ لطیف اور شفاف احساسِ انسانی کو چھوتا ہے اورچیخوں میں دبی آواز اس کو اپنی آوازمحسوس ہوتی ہے۔
'' نیلا خون '' سے لے کر'' آزادی'' تک ان کے افسانوں میں ہمیں زندگی کا ادراک نظرآتا ہے۔خارجی حقیقت نگاری کے ساتھ ساتھ کرداروں کے تیکھے پن کا ایک تاثر بھی ہے جو ایک قابل قدربات ہے۔یہاں ان کی نوجوانی اور پہلے افسانوی مجموعے کے حوالے سے یہ بات حیران کن نہ خیال کی جائے کہ وہ ایک ایسے پیشے سے وابستہ ہیں جہاںزندگی کو قریب سے دیکھا جا سکتا ہے۔مگرانھوں نے زندگی کو محض قریب سے دیکھا ہی نہیں بلکہ زندگی کے من میں جھانکنے کی سعی کی ہے،اسی لیے ان کے افسانوں میں بصیرت کے ساتھ ساتھ ایک دل گدازی اور دل سوزی محسوس ہوتی ہے۔
گو عہد کی صداقتیں اور ان سے منسلک مسائل پر گرفت یقیناایک مصنف کے لیے پر اثر تخلیق کے سامان کا جواز مہیا کرتے ہیں اور گزرتی اور بسر ہوتی زندگی کے کچے مواداوربکھرے ہوئے حالات سے ہی موضوعات لیے جائیں گے مگر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ پائیدار اور اعلیٰ تخلیق ادبی اہمیت کے حوالے سے کسی قسم کی تقریر یا پروپیگنڈہ کی متحمل نہیں ہوسکتی۔ افسانہ ہو یا کوئی دوسری صنفِ اَدب اسے ہر حال میں نرم و لطیف نغمے کی صورت میں ہی ڈھلنا چاہیے تب ہی اس کو اعلیٰ فلسفیانہ شکل میں ایک طویلLifecycleکا حامل خیال کیا جاسکے گا۔
خاورچودھری کے پاس ابھی بہت وقت ہے۔داخلی جذبے کے ساتھ مطالعۂ کائنات جیسے جیسے ان کے احساس کا حصہ بنے گا ان کے اندر کی انقلابی کیفیت کے آہنگ کم کم ہوں گے اور نتیجتاً فکری ہمہ گیری کے مراحل میں بتدریج پیش رفت ادبی اہمیت کی اعلیٰ تخلیقات کے امکانات کو یقینی بنا سکے گی اور اَدب سے جڑے لوگوں کو اس حوالے سے ان کے دوسرے افسانوی مجموعے کا شدت سے انتظار رہے گا۔ ( ماہنامہ قومی زبان۔جون۔2008ء )
OOOO
چیخوں میں دبی آواز پرمختصر تاثرات
''افسانے تقریباًسارے ہی پڑھنے کااتفاق ہوا۔افسانے اوران کاموضوع آج کے معاشرے،اس کی نیرنگیوں سے جڑے ہوئے ہیں۔اظہارکے لیے آپ جوپیرایہ منتخب کرتے ہیں وہ مفہوم کونہ صرف واضح کرتابلکہ قاری کے دل میں اُترتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔اور قاری اپنی کہنے سے پہلے آپ کے کہے ہوئے پرایمان لے ہی آتا ہے۔''
--وقار بن الٰہی(افسانہ نگار۔اسلام آباد)--
OOOO
''اس کتاب کاپہلاافسانہ(نیلاخون)اور''چیخوںمیں دبی آواز''پڑھے ہیں۔ماشاء اللہ آپ کے پاس افسانہ نگاری کاجوہر خوب ہے۔محمدحامدسراج نے درست ہی لکھا ہے کہ آپ کے افسانے انسانی سرشت کوبے نقاب کرتے ہیں۔آپ کے اندرلگن موجود ہے اور وہی آدمی کو ممتازوممیزکرتی ہے۔''
--احمدصغیرصدیقی(افسانہ نگار۔شاعر۔کراچی)--
OOO
''میرے نزدیک کسی افسانے کی پہلی خوبی غیرضروری تفصیل سے گریز ہے۔آپ کے پاس یہ ہنر ہے اوراپنے افسانوں میں اسے استعمال بھی کرتے ہیں۔''
--طاہرنقوی(افسانہ نگار۔کراچی)--
OOO
القمرآن لائن پرآپ کی کتاب''چیخوں میں دبی آواز''کے حوالے سے محترم بزرگوارم ڈاکٹرپروفیسرفرمان فتح پوری صاحب کا تبصرہ پڑھ کر بڑی خوشی ہوئی۔آپ ادب ہی نہیںبلکہ اپنی تحریروں کے ذریعے احترام وفروغ آدمیت و انسانیت کے لیے کام کررہے ہیں۔محترم پروفیسر فرمان فتح پوری صاحب توماشاء اللہ اردوادب پرایک سندکادرجہ رکھتے ہیں اور ان جیسے نقاد کاآپ کی کتاب میں شامل کہانیوں پر لکھا ہوا ہر ایک لفظ آپ کی ادبی فن کے لیے بھی سند ہی سمجھا جائے گا۔
میں آپ کی تحریروںکوبڑی قدرکی نگاہ سے دیکھتاہوں اوردعاکرتاہوںکہ اللہ آپ کے قلم کو مزیدتقویت عطاکرے۔آمین
--نصرملک(افسانہ نگارشاعربراڈکاسٹرکوپن ہیگن،ڈنمارک)--
OOO
''آپ اچھاافسانہ لکھتے ہیں۔زبان پرآپ کوعبورحاصل ہے اورآپ افسانے کی تکنیک سے بھی واقف ہیں۔ آپ کاپہلا افسانہ معاشرے کی صحیح عکاسی کرتا ہے۔رشتوں کے حوالے سے آپ نے خون کوخوب نیلاکرکے دکھایا ہے۔ چار اورافسانے بھی پڑھے ہیں جن میں آپ کا نقطۂ نظر واضح ہے۔''
--شاہدشیدائی(مدیرکاغذی پیرہن،لاہور)--
OOOO
''معاشرے کے سنگین اورتلخ حقائق کونوکِ قلم پر لاکر آپ نے جس جرأت مندی سے اظہارکاروپ دیا ہے وہ یقینا اُردو کے افسانوی ادب میں ایک نیا موڑثابت ہوگا۔ان افسانوں میںصرف زبان وبیان کی دلکشی ہی نہیں، فکرانگیزی کے عناصر بھی بتمام وکمال موجود ہیں۔ایک قطعہ پیش خدمت ہے:
بے حس لوگوں کی بستی میں
خاور نے کتنی ہمت کی
اشکوں میں دیکھا منظر غم
''چیخوں میں دبی آواز'' سنی
--ڈاکٹرپروفیسرسیدقاسم جلال(بہاول پور)--
OOOO
''ماشاء اللہ آپ کی ادبی سرگرمیوں کا کینوس بہت وسیع ہے۔ کالم، افسانے، ہائیکو، واکا، ماہیے اورغزل تک کے میدانوں میں آپ نے طبع آزمائی فرمائی ہے جوقابل تحسین ہے۔اللہ کرے زورِقلم اورزیادہ۔
--پروفیسرڈاکٹرطاہرسعیدہارون(شاعر۔لاہور)--
OOOO
"I am writing this to thank you for sending me a copy of your recently published collection of short stories "Cheekhoon main Dubi Awaz".
I have already gone through first five stories included in the volume. They provide the reader a wonderful opportunity to share your perceptions and insights regarding contemporary society and human relations developed by it.
I pray for your success and advancement in life."
--قاضی جاوید(ریذیڈنٹ ڈائریکٹراکادمی ادبیات،لاہور)--
OOOO
''آپ کی افسانہ نگاری پرفنی گرفت سے بے حدمتاثرہوا۔آپ کے سارے افسانوں نے مجھے بے حدمتاثرکیا۔یقین کریں میں پڑھتا گیااوردل ہی دل میںآپ کے مشاہدوں کی داد دیتارہا۔۔۔اللہ کرے زورِقلم اورزیادہ۔''
--سلطان سکون(شاعر۔ایبٹ آباد)--
OOOO
''آپ کے افسانے ایک تازہ ذائقہ رکھتے ہیں،آپ چونکہ ایک صحافی بھی ہیں اس لیے آپ کاVision نہایت وسیع اور عمیق ہے جوآپ کے افسانوں میں چارسونظرآتا ہے،آپ کے افسانے زندگی اورروایت کے مابین گھومتے ہیںجس سے ان کامطالعہ کرتے ہوئے کہیں بھی اجنبیت کااحساس نہیں ہوتا۔آپ کی تحریرنہایت شائستہ اورمتاثرکن ہے۔
اس وقت ہماراافسانہ نئے لکھنے والوں کی راہیں تک رہا ہے،مجھے امید ہے آپ بہت جلدبہت آگے نکل جائیں گے۔''
--ہارون الرشید(نقاد۔شاعر۔اسسٹنٹ پروفیسر،مانسہرہ)--
OOOO
''آپ کااندازِتحریردل لبھانے،سوچ اورفکرکومہمیزدینے والا ہے۔آپ کے افسانوں میںتاریخ کوآمیخت کرنے کاعمل بڑی ہنرمندی سے دَرآیا ہے۔مجھے وہی تحریریںزیادہ پسند ہیں،جن میںزندگی کی حقیقتوں سے آنکھیں چرانے کارویہ نہ ہو۔آپ نے متذکرہ حقیقتوں کی گہرائی میں ڈوب کر یہ افسانے تخلیق کیے ہیں۔دردوکرب کی آپ نے جو شمع فروزاں کی ہے،خداکرے کہ اس کی لومدہم نہ ہو اور آپ یونہی افسانے بُنتے اورکہانیاںکہتے رہیں۔''
--سجادمرزا(شاعر۔گوجرانوالہ)--
OOO
''یہ افسانے ہمارے اردگردبکھری ہوئی کہانیاں ہیں،یہ واقعات ہیں جو غریبوں کو ہر روز پیش آتے ہیںاوران کے خواب چکنا چور ہو جاتے ہیں۔خاورچودھری نظم کی طرح نثربھی خوب لکھتے ہیں،اندازبیاںپُراثرہے اورافسانے پڑھ کر انسان غم واندوہ کے سمندر میں ڈوب جاتا ہے،یہی خاورچودھری کاکمال ہے،وہ معاشرے کی ناانصافیوں کے خلاف صدائے احتجاج مؤثراندازمیں بلندکرتا ہے۔''
--انوارفیروز(نوائے وقت اسلام آباد)--
OOO
''روزنامہ''اسلام'' کے ادارتی صفحے کی رونق بڑھانے والا آپ کاکالم ''چراغ بکف''سیاست کی تلخ اورکھردری حقیقتوں کے اظہار میں بھی نثرکے جمال اورشعرکی نرمی وحلاوت کوہاتھ سے نہیںجانے دیتے توافسانہ نگاری کے گلستان میں آپ کے قلم نے انسانی رویوں کے بوقلموںاظہارمیںکیاکیانہ گل بوٹے کھلائے ہوںگے۔''
--محمدآصف مرزا(مدیردستک،مری)--
OOOO
''شایداسی لیے قیامت کے دن سب کو''ماں'' کے نام سے پکاراجائے گا۔ایک خوبصورت پیرائے میں اتنے گمبھیرمعاشرتی مسئلے اورازدواجی زندگی کے حساس پہلوؤں کو اُجاگر کرتے ہوئے آپ نے ایک جاندارکہانی تخلیق کی ہے۔ اس موضوع پرجدیداُردوکہانیوں میں میری نظر سے یہ پہلی کہانی گزری ہے۔
آپ کی کہانی کی بنت،ماحول کی عکاسی،خواہشوں اورمحبتوں کااظہاراورخاص کرزبان کااستعمال سبھی کچھ بہت اچھالگا۔''
--نصرملک(کوپن ہیگن،ڈنمارک)--
(افسانہ ''بے انت''مطبوعہ 16مئی2008ء القمرآن لائن پراظہارخیال)
(17مئی2008ء القمرآن لائن)
OOO
'' انسانی سائیکی میں انسانی تحفظات کاایک رُخ جسے''ڈینائل'' کہتے ہیںکواس کہانی میںاتنی عمدگی کے ساتھ نبھایا گیا ہے کہ قاری کوایک منٹ کے لیے بھی توجہ ہٹانے نہیں دیتا۔جزیات نگاری نے کہانی کوبہت جاندارکردیاہے۔''
--ڈاکٹرنگہت نسیم(کالم نگار۔شاعرہ۔سڈنی،آسٹریلیا)--
(افسانہ ''بے انت''مطبوعہ 16مئی2008ء القمرآن لائن پراظہارخیال)
(18مئی2008ء القمرآن لائن)
OOOO
''میرے نزدیک خاورچودھری اس دور کے کرشن چندر ہیں۔''
--م۔م۔مغل(شاعر۔کراچی)--
(23مئی2008ئ۔۔اُردومحفل ۔۔اُردوویب سائٹ)
OOO
--وقار بن الٰہی(افسانہ نگار۔اسلام آباد)--
OOOO
''اس کتاب کاپہلاافسانہ(نیلاخون)اور''چیخوںمیں دبی آواز''پڑھے ہیں۔ماشاء اللہ آپ کے پاس افسانہ نگاری کاجوہر خوب ہے۔محمدحامدسراج نے درست ہی لکھا ہے کہ آپ کے افسانے انسانی سرشت کوبے نقاب کرتے ہیں۔آپ کے اندرلگن موجود ہے اور وہی آدمی کو ممتازوممیزکرتی ہے۔''
--احمدصغیرصدیقی(افسانہ نگار۔شاعر۔کراچی)--
OOO
''میرے نزدیک کسی افسانے کی پہلی خوبی غیرضروری تفصیل سے گریز ہے۔آپ کے پاس یہ ہنر ہے اوراپنے افسانوں میں اسے استعمال بھی کرتے ہیں۔''
--طاہرنقوی(افسانہ نگار۔کراچی)--
OOO
القمرآن لائن پرآپ کی کتاب''چیخوں میں دبی آواز''کے حوالے سے محترم بزرگوارم ڈاکٹرپروفیسرفرمان فتح پوری صاحب کا تبصرہ پڑھ کر بڑی خوشی ہوئی۔آپ ادب ہی نہیںبلکہ اپنی تحریروں کے ذریعے احترام وفروغ آدمیت و انسانیت کے لیے کام کررہے ہیں۔محترم پروفیسر فرمان فتح پوری صاحب توماشاء اللہ اردوادب پرایک سندکادرجہ رکھتے ہیں اور ان جیسے نقاد کاآپ کی کتاب میں شامل کہانیوں پر لکھا ہوا ہر ایک لفظ آپ کی ادبی فن کے لیے بھی سند ہی سمجھا جائے گا۔
میں آپ کی تحریروںکوبڑی قدرکی نگاہ سے دیکھتاہوں اوردعاکرتاہوںکہ اللہ آپ کے قلم کو مزیدتقویت عطاکرے۔آمین
--نصرملک(افسانہ نگارشاعربراڈکاسٹرکوپن ہیگن،ڈنمارک)--
OOO
''آپ اچھاافسانہ لکھتے ہیں۔زبان پرآپ کوعبورحاصل ہے اورآپ افسانے کی تکنیک سے بھی واقف ہیں۔ آپ کاپہلا افسانہ معاشرے کی صحیح عکاسی کرتا ہے۔رشتوں کے حوالے سے آپ نے خون کوخوب نیلاکرکے دکھایا ہے۔ چار اورافسانے بھی پڑھے ہیں جن میں آپ کا نقطۂ نظر واضح ہے۔''
--شاہدشیدائی(مدیرکاغذی پیرہن،لاہور)--
OOOO
''معاشرے کے سنگین اورتلخ حقائق کونوکِ قلم پر لاکر آپ نے جس جرأت مندی سے اظہارکاروپ دیا ہے وہ یقینا اُردو کے افسانوی ادب میں ایک نیا موڑثابت ہوگا۔ان افسانوں میںصرف زبان وبیان کی دلکشی ہی نہیں، فکرانگیزی کے عناصر بھی بتمام وکمال موجود ہیں۔ایک قطعہ پیش خدمت ہے:
بے حس لوگوں کی بستی میں
خاور نے کتنی ہمت کی
اشکوں میں دیکھا منظر غم
''چیخوں میں دبی آواز'' سنی
--ڈاکٹرپروفیسرسیدقاسم جلال(بہاول پور)--
OOOO
''ماشاء اللہ آپ کی ادبی سرگرمیوں کا کینوس بہت وسیع ہے۔ کالم، افسانے، ہائیکو، واکا، ماہیے اورغزل تک کے میدانوں میں آپ نے طبع آزمائی فرمائی ہے جوقابل تحسین ہے۔اللہ کرے زورِقلم اورزیادہ۔
--پروفیسرڈاکٹرطاہرسعیدہارون(شاعر۔لاہور)--
OOOO
"I am writing this to thank you for sending me a copy of your recently published collection of short stories "Cheekhoon main Dubi Awaz".
I have already gone through first five stories included in the volume. They provide the reader a wonderful opportunity to share your perceptions and insights regarding contemporary society and human relations developed by it.
I pray for your success and advancement in life."
--قاضی جاوید(ریذیڈنٹ ڈائریکٹراکادمی ادبیات،لاہور)--
OOOO
''آپ کی افسانہ نگاری پرفنی گرفت سے بے حدمتاثرہوا۔آپ کے سارے افسانوں نے مجھے بے حدمتاثرکیا۔یقین کریں میں پڑھتا گیااوردل ہی دل میںآپ کے مشاہدوں کی داد دیتارہا۔۔۔اللہ کرے زورِقلم اورزیادہ۔''
--سلطان سکون(شاعر۔ایبٹ آباد)--
OOOO
''آپ کے افسانے ایک تازہ ذائقہ رکھتے ہیں،آپ چونکہ ایک صحافی بھی ہیں اس لیے آپ کاVision نہایت وسیع اور عمیق ہے جوآپ کے افسانوں میں چارسونظرآتا ہے،آپ کے افسانے زندگی اورروایت کے مابین گھومتے ہیںجس سے ان کامطالعہ کرتے ہوئے کہیں بھی اجنبیت کااحساس نہیں ہوتا۔آپ کی تحریرنہایت شائستہ اورمتاثرکن ہے۔
اس وقت ہماراافسانہ نئے لکھنے والوں کی راہیں تک رہا ہے،مجھے امید ہے آپ بہت جلدبہت آگے نکل جائیں گے۔''
--ہارون الرشید(نقاد۔شاعر۔اسسٹنٹ پروفیسر،مانسہرہ)--
OOOO
''آپ کااندازِتحریردل لبھانے،سوچ اورفکرکومہمیزدینے والا ہے۔آپ کے افسانوں میںتاریخ کوآمیخت کرنے کاعمل بڑی ہنرمندی سے دَرآیا ہے۔مجھے وہی تحریریںزیادہ پسند ہیں،جن میںزندگی کی حقیقتوں سے آنکھیں چرانے کارویہ نہ ہو۔آپ نے متذکرہ حقیقتوں کی گہرائی میں ڈوب کر یہ افسانے تخلیق کیے ہیں۔دردوکرب کی آپ نے جو شمع فروزاں کی ہے،خداکرے کہ اس کی لومدہم نہ ہو اور آپ یونہی افسانے بُنتے اورکہانیاںکہتے رہیں۔''
--سجادمرزا(شاعر۔گوجرانوالہ)--
OOO
''یہ افسانے ہمارے اردگردبکھری ہوئی کہانیاں ہیں،یہ واقعات ہیں جو غریبوں کو ہر روز پیش آتے ہیںاوران کے خواب چکنا چور ہو جاتے ہیں۔خاورچودھری نظم کی طرح نثربھی خوب لکھتے ہیں،اندازبیاںپُراثرہے اورافسانے پڑھ کر انسان غم واندوہ کے سمندر میں ڈوب جاتا ہے،یہی خاورچودھری کاکمال ہے،وہ معاشرے کی ناانصافیوں کے خلاف صدائے احتجاج مؤثراندازمیں بلندکرتا ہے۔''
--انوارفیروز(نوائے وقت اسلام آباد)--
OOO
''روزنامہ''اسلام'' کے ادارتی صفحے کی رونق بڑھانے والا آپ کاکالم ''چراغ بکف''سیاست کی تلخ اورکھردری حقیقتوں کے اظہار میں بھی نثرکے جمال اورشعرکی نرمی وحلاوت کوہاتھ سے نہیںجانے دیتے توافسانہ نگاری کے گلستان میں آپ کے قلم نے انسانی رویوں کے بوقلموںاظہارمیںکیاکیانہ گل بوٹے کھلائے ہوںگے۔''
--محمدآصف مرزا(مدیردستک،مری)--
OOOO
''شایداسی لیے قیامت کے دن سب کو''ماں'' کے نام سے پکاراجائے گا۔ایک خوبصورت پیرائے میں اتنے گمبھیرمعاشرتی مسئلے اورازدواجی زندگی کے حساس پہلوؤں کو اُجاگر کرتے ہوئے آپ نے ایک جاندارکہانی تخلیق کی ہے۔ اس موضوع پرجدیداُردوکہانیوں میں میری نظر سے یہ پہلی کہانی گزری ہے۔
آپ کی کہانی کی بنت،ماحول کی عکاسی،خواہشوں اورمحبتوں کااظہاراورخاص کرزبان کااستعمال سبھی کچھ بہت اچھالگا۔''
--نصرملک(کوپن ہیگن،ڈنمارک)--
(افسانہ ''بے انت''مطبوعہ 16مئی2008ء القمرآن لائن پراظہارخیال)
(17مئی2008ء القمرآن لائن)
OOO
'' انسانی سائیکی میں انسانی تحفظات کاایک رُخ جسے''ڈینائل'' کہتے ہیںکواس کہانی میںاتنی عمدگی کے ساتھ نبھایا گیا ہے کہ قاری کوایک منٹ کے لیے بھی توجہ ہٹانے نہیں دیتا۔جزیات نگاری نے کہانی کوبہت جاندارکردیاہے۔''
--ڈاکٹرنگہت نسیم(کالم نگار۔شاعرہ۔سڈنی،آسٹریلیا)--
(افسانہ ''بے انت''مطبوعہ 16مئی2008ء القمرآن لائن پراظہارخیال)
(18مئی2008ء القمرآن لائن)
OOOO
''میرے نزدیک خاورچودھری اس دور کے کرشن چندر ہیں۔''
--م۔م۔مغل(شاعر۔کراچی)--
(23مئی2008ئ۔۔اُردومحفل ۔۔اُردوویب سائٹ)
OOO
خاورچودھری…سچائی کاپیامبر
(تحریرمنظوراعوان)
کچھ لوگ بولتے ہیں توبولتے ہی چلے جاتے ہیں،لیکن ان کی باتیں اذہان کومتاثرکیے بغیرکانوں کوچھوکرگزرجاتی ہیں۔کچھ لوگ لکھتے ہیں تولکھتے ہی چلے جاتے ہیں، لیکن ان کے لفظ دلوں کوچھوئے بغیرنگاہوں سے ٹکراکرہوا ہوجاتے ہیں مگرکچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیںجوبولتے ہیں توباتوں کوبچابچاکراورلکھتے ہیں تولفظوں کوسجاسجاکررکھتے ہیں۔گویاکہ نایاب قیمتی موتی جڑے ہوئے ہوتے ہیں۔واقعتا اس قحط الرجال میں ایسے لوگوں کی چیدہ چیدہ باتیں اورچنیدہ چنیدہ لفظ غنیمت ہیں۔زبان کی تاثیراورقلم کی کاٹ سے کسے انکار'لیکن یہ خداکی دین ہے جسے چاہتا ہے عطا کرتا ہے۔
چھچھ کاایک قابل فخربیٹاجس کاشمارایسے ہی چیدہ وچنیدہ لوگوں میں ہوتا ہے 'جوبولتے ہیںتوباتوں کوتول تول کراورلکھتے ہیںتولفظوں کوگن گن کر لیکن تاثیرایسی کہ قلب وضمیر میں روح پھونک دے۔زندگی کے کٹھن سفرکی طرف قدم بڑھائے توادب وصحافت کامشکل راستہ چنا'گویا کہ
زندگی تیرے لیے ہم نے چنا ہے جس کو
کیسے ممکن ہے کہ وہ رستہ دشوار نہ ہو
اپنے نام چودھری غلامِ رسول کی طرح اسم بامسمیٰ ' خوب صور ت اورخوب سیرت۔اصل نام توتاریخ میں کہیں پیچھے چھوڑ آئے'شایدخدشہ تھا کہ کسی ذاتی خطاکاپرتواس نام پرنہ پڑے جس میں پیارے آقا صلی اللہ علیہ والہ وسلم کااسم گرامی شامل ہے۔اصل نام کودنیاداری کی آلائشوں سے محفوظ کرکے ایک طرف رکھنے کے باوجود ہمیشہ اس نام کا بھرم رکھنے کی بھرپور کوشش کی۔
جس طرح اپنے اصل نام کی لاج نبھائی اسی طرح اپنے کرداروعمل سے ادب و صحافت کی ساکھ بھی بچائی۔ جوقلمی نام چنا وہ بھی کم خوبصورت نہیں۔اَب خاورچودھری کے نام سے جانے پہچانے جاتے ہیں'گویا کہ یہی نام ان کی ذات کاحصہ ہوکررہ گیا ہے۔
خاورچودھری گجرقوم کی کٹھانہ گوت کے ایک شریف گھرانے میں محمدعلی کے ہاں15۔اپریل1972ء کے اندورن کشمیری گیٹ کوٹلہ بازارحضرو میںگوکل چنداوربال مکند کے چھوڑے ہوئے بنگلے میں پیدا ہوئے۔خاندانی پس منظر میں کوئی خاص طرہ یاتمغہ ہے نہ کوئی سندیاخلعت ' جس کا راگ الاپاجائے۔لق ودق غربت ہے جس کا تذکرہ بے سود۔ کیونکہ غریب امیرکوبھاتا نہیں اورجوغریب امیرہوجاتا ہے وہ اپنا ماضی چھپاتا پھرتا ہے۔لہٰذاجوغربت انسپائریشن کاباعث نہ ہو'اس کوبیان کرنے کاکوئی فائدہ نہیں۔لے دے کے ایک خودداری رہ جاتی ہے'جس سے اس گھرانے کادامن مال مالاہے لیکن فی زمانہ یہ سکہ چلتا نہیں۔ہاں!البتہ پہلے زمانے میں چلتا تھااوربڑے بڑوں کوانسپائرکرتاتھا۔ تاریخ کے دوبڑے نام جوصدیوں بعدآج بھی بچے بچے کی زبان پر ہیں،سکندراعظم اورحاتم طائی۔
سکندراعظم کاتویہ موقع نہیں'البتہ حاتم طائی کاایک واقعہ بیان کردینا بے محل نہ ہوگا۔رئیس العرب حاتم طائی سے کسی نے کہاکہ آپ کی امارت اورسخاوت کاتوایک جہان معترف ہے' اپنی زندگی میں آپ بھی کسی سے متاثر ہوئے؟ حاتم طائی بولے!
''جی ہاں!واقعہ کچھ اس طرح ہے کہ میں اپنے ایک رئیس دوست کے ساتھ بغرض تفریح صحرا کی طرف نکل گیا۔اسی دوران میلے کچیلے پیوندلگے کپڑوں میں ملبوس' لکڑیوں کاگٹھا اٹھائے ایک لکڑہارے سے ہماراسامناہوگیا۔میرے دوست نے لکڑہارے سے کہا کہ اتنی مشکل میں پڑنے کی بجائے حاتم طائی کے دسترخوان(لنگر) سے استفادہ کرلیاکرو' جہاں صبح و شام ہزاروں افرادکے کھانے کااہتمام ہوتا ہے۔ لکڑہارے نے جواب دیا'جوشخص اپنے ہاتھوں کی کمائی سے روکھی سوکھی کھانے کے قابل ہو'اُسے حاتم طائی کااحسان اٹھانے اورزیرِبار ہونے کاکیافائدہ؟۔یہ جواب سن کراُس کی قناعت پسندی اورخودداری نے اس قدرمتاثرکیا میں ساری زندگی اس کے سحر سے آزادنہیں ہوپایا۔''
آج کے امراء ورؤساکوخوددارلوگ نہ راس آتے ہیں نہ بھاتے ہیں۔لہٰذاکھوٹے سکوں پہ بہارآئی ہوئی ہے۔ جن کی مارکیٹ میںمانگ بھی ہے اورجودھڑادھڑچلتے بھی ہیں۔یہ سب جانتے بوجھتے ہوئے بھی کچھ لوگوں نے خودداری کے جذبے کوپال رکھا ہے۔حالانکہ اس جذبے کوقائم رکھناپل صراط پرچلنے کے برابرہوگیا ہے۔لے دے کے''اک جندڑی تے دکھ ہزار'' کے مصداق خاورچودھری کی اپنی شخصیت ہی رہ جاتی ہے۔جس پرقلم اُٹھایاجاسکتا ہے اورقلم اُٹھاتے ہوئے فخربھی محسوس ہوتاہے۔لق ودق غربت اورمحرومیوں سے لڑتے لڑتے جس بے مثال خودداری کے ساتھ انہوں نے اپناراستہ بنایا'اس سے نہ صرف اپنی اوراپنے پیشے کی آن بڑھائی بلکہ علاقہ چھچھ کی شان میں بھی بے پناہ اضافہ کیا۔چھچھ کے اس قابل فخر بیٹے کی تحریریںنہ صرف ملکی سطح پرپسندیدگی کے ساتھ پڑھی جاتی ہیں بلکہ انہیں بین الاقوامی سطح پربھی سراہاجاتا ہے۔اس کی ایک مثال انڈیا سے شائع ہونے والے رسالے سہ ماہی
'' سمت'' کی صور ت میں دی جاسکتی ہے۔اس رسالے نے اپنی اشاعت جولائی تاستمبر2008ء میںایک خصوصی گوشہ خاورچودھری کے نام کیا۔جس میں ان کی منتخب شاعری اورمنتخب افسانے بھی شامل کیے گئے اوران کے حوالے سے بعض مشاہیرادب کے مضامین بھی۔سب سے بڑھ کریہ کہ اس رسالے نے اپنے اداریے میں انہیں''ورسٹائل جینئس'' کاخطاب بھی دیا۔ اسی طرح ڈنمارک میں مقیم وہاں کے ریڈیومیں اُردونشریات کے سربراہ نصرملک نے ان کے دوہوںپررائے دیتے ہوئے انہیں''اَدب تلسی''کانام دیا۔
انٹرنیٹ پرشائع ہونے والی ان کی تحریریں دنیا کے مختلف ملکوں میں پڑھی جاتی ہیں۔وہ معروف نیوزکاسٹرماہ پارہ صفدرکے خاوندممتازبراڈکاسٹر،ادیب وشاعرصفدرہمدانی( بی بی سی شعبہ اردو)کے روزنامے ''عالمی اخبار'' لندن کے لیے پاکستان سے نائب بیوروچیف کی حیثیت سے کام کرنے کے علاوہ اس کے مستقل کالم نگار بھی ہیں۔اس اخبار کے مدیران میں فیض احمد فیض کے ساتھ کام کرنے والے سینئرصحافی آصف جیلانی(بی بی سی)اورنامورافسانہ نگارڈاکٹرنگہت نسیم آسٹریلیاکے نام شامل ہیں۔اس کے علاوہ انہوں نے کچھ عرصہ تک معروف ادبی وعلمی ویب سائٹ''القلم'' میں شعبہ اَدب کی ادارت کے فرائض انجام دیے اورساتھ ہی''اردونامہ''ویب کے ناظم رہے۔مشہورویب سائٹ ''اردومحفل'' میں لکھتے رہے اوراس ویب سائٹ نے ایک ووٹنگ(مقابلے) کے ذریعے انہیں سال2008ء کابہترین لکھاری قراردیا۔دبئی سے شائع ہونے والے ''اُردونیوزآن لائن'' کے حصہ اَدب میں ان کے افسانے پڑھے جاسکتے ہیں۔اسی ادارے کے ماہنامے میں بھی خاورچودھری کی تحریریں شامل رہتی ہیں۔کچھ عرصہ پہلے تک وہ''القمرآن لائن '' کے لیے بھی کالم اوربلاگ لکھتے رہے۔
دبئی اور پاکستان سے بیک وقت شائع ہونے والے مقبول اخبارروزنامہ''الشرق'' میں ان کاکالم''چراغ بہ کف'' کے عنوان سے شائع ہوتا ہے اوراسی نام سے ملک کے ممتازوموقرروزنامہ''اسلام'' میںان کاکالم مئی2005ء سے باقاعدگی کے ساتھ شائع ہورہاہے۔روزنامہ ''اسلام''سے وابستگی سے قبل ان کے کالم''جنگ، نوائے وقت، خبریں، ایکسپریس،اساس، ہمدرد،اذکاراورجناح وغیرہ میں بھی چھپتے رہے ہیں۔
خاورچودھری کی ادبی تحریریں ماہنامہ''سخنور''کراچی،سہ ماہی ''تجدیدنو'' لاہور، ماہنامہ''بیاض''لاہور،ماہنامہ''ادب لطیف''لاہور،سہ ماہی ''تضمین''لاہور،سہ ماہی ''قرطاس'' گوجرانوالہ،سہ ماہی ''سمت ''انڈیا،سہ ماہی ''شعروسخن''مانسہرہ اورماہنامہ''نیرنگِ خیال'' میںشائع ہوتی رہتی ہیں۔
نثرہوکہ نظم' تخیل کی خوبصورتی اسی طرح چھلکتی ہے' جس طرح ان کی شخصیت،ان کے نام اورکردار سے۔''ٹھنڈاسورج'' کے نام سے ایک شعری مجموعہ2006ء میں شائع ہوچکا ہے
( جس کاترجمہ انگلش زبان میں معروف علمی شخصیت پروفیسرڈاکٹراشرف الحسینی نے کیا ہے)۔البتہ پریم جل(دوہا)نہ جنوںرہا(غزلیات)امید(واکا)اشاعت کی منتظر ہیں۔نثر کی فہرست توخاصی طویل ہے۔کئی اخبارات وجرائداورویب سائٹس کے لیے روزانہ مختلف کالم اورمضامین ان کے معجزنماقلم کی کوکھ سے جنم لیتے ہیں' تاہم ''خواب،کرچیاںاورمسافر'' (کالم2001ئ) ، ''چراغ بہ کف''(کالم2007ئ)،''چیخوں میں دبی آواز''(افسانے2008ئ) کے نام سے تین کتابیں زیورطباعت سے آراستہ ہوکرمشتاقان مطالعہ کے ہاتھوں میں پہنچ چکی ہیں۔ناولٹ ''زنگ آلودخواہشیں'' ڈائجسٹ ''سچی کہانی''لاہورکی اشاعت1996ء میں شائع ہوچکا ہے تاہم اسے کتابی صورت میں بھی مرتب کیاگیا ہے۔ادبی شخصیات کے انٹرویوز''گفتگوئے یار'' کے نام سے تکمیل پاکرطباعت کے انتظار میں ہیں۔معیشت مہربان ہوتویہ کتابیں قارئین کے ہاتھوں میں ہوں۔
خاورچودھری کی شخصیت اورفن کے حوالے سے بیسیوں علمی وادبی مشاہیرنے تاثرات اورمضامین لکھے ہیں۔ان تاثرات اورمضامین کوکامرہ سے تعلق رکھنے والے معروف ادیب پروفیسرسیدنصرت بخاری نے مرتب کرکے''حدیثِ دیگراں'' کے نام سے2008ء میں شائع کروادیا ہے۔یہ کتاب بھی مشتاقانِ علم وادب کی نذرہوچکی ہے۔
خاورچودھری جب ادب وصحافت کے میدان میں اُترے تواکثرمشاہیر کی طرح ان کی راہ میں بھی ناگفتہ بہ معاشی حالات کے لق ودق صحرا پھیلے ہوئے تھے۔ایسے مشاہیرِ ادب وصحافت جنہوں نے جاں گسل مشقت سے گزرتے ہوئے اپناسفرطے کیا اورآج جن کے نام شہرت کے افلاک پرآفتاب وماہتاب کی طرح جگمارہے ہیں۔اپنے موضوع کی مطابقت سے
فی الوقت دوایسے ناموں پراکتفاکرتے ہیں جوموجودہ نسل کے زیادہ تردیکھے بھالے یاکم ازکم سنے سنائے ہیں۔ مثلاً صلاح الدین شہیدجنہوں نے عملی زندگی کی ابتدا سائیکل مکینک، درزی اورگھڑی ساز کی حیثیت سے کی۔پھرایک دورایسا بھی آیا جب ان کے ہاتھوں ماہنامہ ''تکبیر'' جیساشہرہ آفاق جریدہ رونما ہوا۔ماہنامہ''تکبیر''کواپنے وقت کا معتبر ترین جریدہ مانا جاتا ہے۔تکبیرکاشمارپاکستان کے ان محدودے چندجرائد میں ہوتا ہے جواپنے معیاراوراعتبار کی بنیادپرساحل کراچی سے خنجراب اوربولان سے خیبرتک پسندیدگی کے ساتھ پڑھا جاتا تھا۔ اپنی ابتدائی زندگی میںمحنت مزدوری کی جاں گسل مشقت سے گزرنے والے یہ صحافی صلاح الدین شہید ہی تھے جنہوں نے محروم اورپسے ہوئے طبقات کو''بنیادی حقوق'' جیسی شاہکار کتاب عطا کی۔
ابتدائی زندگی میں اینٹیں اورگاراڈھوڈھوکرجن کے ہاتھوں پرگٹھلیاں پڑگئیں۔پنجاب یونی ورسٹی کی تعمیر میں بطورمزدورکام کیاپھروہاںصدرممتحن رہے۔جن کانام شعروادب کے آفاق پرآج بھی مہ ِتاباں کی طرح چمک رہا ہے۔دنیائے شعروادب میں بے پناہ عزت واحترام سمیٹنے والے اس مزدورشاعرکوتاریخ استاداحسان دانش کے نام سے ہمیشہ یاد رکھے گی۔
خاورچودھری' محنت مزدوری'علم وقلم ہم قدم۔ایک طرف نعت گوئی کاسلسلہ کتابی صورت میں''شمع فروزاں''تک پھیلتا ہے توساتھ ہی''چلمنِ وفا'' کے نام سے رسالے کے ڈیکلریشن کے لیے کوشش کی جاتی ہے اورراولپنڈی سے شائع ہونے والے ہفت روزہ اخبار''ویکلی ویوز ''میںبطوربیوروچیف خدمات انجام دیتے ہیںاورکالم بھی لکھتے ہیں ۔دوسری طرف لذت کام ودہن کے سلسلے کوقائم رکھنے کے لیے بطورویلڈرکام بھی کیااوراپنارنگ وروغن اورہارڈوئیرسٹور بھی چلایا۔اصلاحِ سخن کے لیے زانوئے تلمذڈاکٹرمبارک بقاپوری کے سامنے تہہ کرچکے تھے۔خط وکتابت کے ذریعے سے علم عروض کی تعلیم حاصل کرتے ہیں۔تب مقامی طورپرتوقیرعلی زئی اوردوسرے لوگوں سے باقاعدہ تعارف ہوتا ہے اورتوقیرعلی زئی کی ادارت میں شائع ہونے والے رسالے ''چاک''1994ء میں بطورناظم شامل ہوتے ہیں۔اسی سال کے آخر میںکراچی چلے گئے ۔وہاںڈاکٹرمبارک بقاپوری صاحب سے باقاعدہ ملاقاتوں میں کسب فیض کیا۔دوسرے مشاہیرعلم وادب سے ملاقاتیں بھی رہیںاورپڑھنے لکھنے کاسلسلہ جاری رہا۔کراچی سے پلٹے تو''ایشین نیوزنیٹ ورک'' کے ساتھ منسلک ہوئے اور ساتھ ہی ''نوائے وقت'' میں ادبی مضامین اور''اساس'' میں کالم لکھنا شروع کیے۔اسی زمانے میںاپنے دوست راشدعلی زئی کی معیت میں علاقہ چھچھ کے بانی(PIONEER) اخبار''حضرو'' کاڈیکلریشن اپنے نام سے لے کرشروع کیا۔''حضرو'' اخبارکے پہلے ہی شمارے پرراشدعلی زئی کانام''بانی'' جبکہ خاورچودھری کانام پبلشراورچیف ایڈیٹرکے طورپردرج تھا۔دوسرے شمارے میں راشدعلی زئی کے لیے چیف ایگزیکٹوکاعہدہ تجویزہوا۔اس سلسلہ میں دونوں دوستوں کانام آج بھی ان کے مشترکہ صحافتی سفرکی یاددلاتا ہے۔چھچھ کی روایتی وضع داری کونبھاتے ہوئے دونوں نے ابتدائی دنوں کی یادوں کواپنے دلوں میں بسارکھا ہے۔اس کاثبوت26۔اپریل2009ء کواس وقت سامنے آیا جب حضروپریس کلب رجسٹرڈ کی طرف سے رحمت خان وردگ (مرکزی صدرتحریک استقلال) اورمیجر(ر)طاہرصادق ضلع ناظم اٹک نے خاورچودھری کوحسن کارکردگی ایوارڈ سے نوازا۔اس موقع پرجب ڈائس پرآئے توخاورچودھری نے بہت پڑے پن کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس ایوارڈ کوراشدعلی زئی کے نام کردیا۔چاہے رسماً ہی سہی لیکن برسرِ محفل یہ اعلان باہمی احترام کا منہ بولتاثبوت ہے۔ خاورچودھری کے راستے میں ایسے کئی ایوارڈ اور سنگ میل آتے ہیں جوان کے نام سے منسوب ہیں۔عوامی پسندیدگی کایہ عالم ہے کہ منجملہ سیاسی،صحافتی،علمی اورادبی حلقوں کی جانب سے ہمیشہ ان پر دادوتحسین کے بے تحاشہ پھول نچھاورکیے گئے ہیں۔یہی ان کی زندگی کی سب سے بڑی اچیومنٹ ہے اور اس سے بڑا ایوارڈ اورسنگ میل کوئی اور نہیں ہوسکتا۔
خاورچودھری ادب وصحافت کے میدان میں آج بہت بڑا نام ہے۔اس مقام تک پہنچتے پہنچتے وہ گرتے اٹھتے،سنبھلتے بہت کٹھن مراحل سے گزرے۔آج وہ قومی صحافت میں موجود ہیں اورحضروسے شروع ہونے والا سفر اسلام آباد تک محیط ہے ۔اَب وہ قومی اسمبلی کی رپورٹنگ بھی کرتے ہیں۔انہوں نے ہفت ''حضرو''کونامساعدحالات میں فروخت کردیا تھا' مگررہ نہ سکے اوراس کے ایک سال بعد ادبی رسالہ''سحرتاب''جاری کیا'جس میں ملک کے نامورادیبوں کی رشحات قلم شامل ہوتی تھیں۔سحرتاب کے بعدانہوں نے ''سحرتاب پبلی کیشنز'' کے نام سے اشاعتی کام بھی شروع کیا'جس کے تحت کتابیں شائع ہوتی رہتی ہیں۔ 23مارچ2000ء کوانہوں نے اپنا دوسراذاتی اخبار''تیسرارُخ'' کے نام سے شروع کیا۔اس کے ادبی صفحے کوملک بھر میں پذیرائی ملی۔اس میں مشاہیراَدب کے انٹرویوزشائع ہوتے رہے۔اس ہفت روزہ اخبار کو 2003ء میںروزنامہ میں تبدیل کرکے حضروسے پہلے روزنامے کی بنیادرکھی گئی مگریہ تجربہ زیادہ کامیاب نہ ہوسکا۔بعدازاں2005ء میں انہوں نے راولپنڈی سے ''تعلّم'' کے نام سے اپنا روزنامہ شروع کیا تو تیسرارخ کوواپس ہفت روزہ میں بدل دیا۔آج یہ دنوں اخبارات سرکاری ادارے آڈٹ بیوروآف سرکولیشن سے تصدیق شدہ اشاعت کے ساتھ شائع ہورہے ہیں۔ خاورچودھری لگ بھگ ایک سال تک روزنامہ''شالیمار'' راولپنڈی میں بطورایڈیٹربھی فرائض انجام دے چکے ہیں۔
یہ طویل سفرخارزارصحافت اوراس سفرکی تلخ وشیریں یادیں ابھی ختم نہیں ہوئیںاوریہ سفررواںدواں ہے۔ایسی کامرانیاںانہی کے حصے میں آتی ہیں جوحق وصداقت کا علم بلندرکھتے ہیں اوراپنی خودداری کونیلام کیے بغیرہمیشہ اورہرحال میں استقلال واستقامت کے ساتھ اپنی کمٹ منٹ پرثابت قدم بھی رہتے ہیں۔اس سارے تناظرمیں چھچھ کے اس قابل فخربیٹے کوسچائی کاپیامبرکہاجائے توقطعاً بے جانہ ہوگا۔
(یہ مضمون منظوراعوان کی کتاب'چھچھ کے قابل فخر بیٹے' سے لیاگیا ہے)