______________________
دوہے
آشاؤں کی ہاٹ پر تن بکتا ہے آج
من بھیتر میں ساچ ہو ، آوے جگ کو لاج
اوگُن دھو دے گات کے ٹوٹا من کا ماد
دونوں پاؤں بیڑیاں سیاں کر آزاد
باہر کڑکے دامِنی ، بھیتر آگ لگائے
اَگنی جیسی کامنی ، شیتل ہوتی جائے
رُوپ رسیلا بھور ہے، آنکھ ہوئی سیراب
مُکھڑا تیرا آد سے کرتا ہے بے تاب
حسن کی مالا جاپنا ،ہر پل اپنا کام
تورے عشق کا اوگُنی ، بھولا اپنا نام
رُوپ ترا ہے چاندنی ، بال ہیں سونا تار
گوری تیرے کارنے ، جاؤں جیون ہار
گوری گائے گیت رے ، سجنا من کی آس
کوسوں پھیلی دُوریاں ، صدیوں پھیلی پیاس
ماٹی موری ذات ہے ، میں ماٹی کا پوت
کھشتری ہو تو پارسا ، پاپی جو ہو چھوت
دھرتی موری آگ ہے ، میں دھرتی کی آگ
میں بھولا ہوں ماترے ، بھولا دیپک راگ
مورے من کی آگ پر ساون بھادوں روئے
گہری ندیا آنکھ کی ڈوب نہ جائے کوئے
ماٹی کو سونا کہے ، مورکھ جھوٹ کمائے
تن اگنی کی ساڑ سے ، من بگیا جل جائے
جوت بجھی من آنگنا ، کاری ہے ہر سوچ
مار نہ جی کو لاٹھیاں ، نا اپنا منہ نوچ
بات سُریلی بانسری ، رُوپ سجیلا چاند
چھیل چھبیلی ناریاں ، تورے آگے ماند
کملے خاور دھیان سے چل جیون یوں کاٹ
ماشہ اُوپر نا تلے ، سیدھا ہو ہر باٹ
انتر باہر وارتا ، ہر جذبہ لے بھانپ
سارے پوت کپوت دے ماٹی میّا ڈھانپ
توری جھولی چھیکلا ، پگ پگ تو پھیلائے
لوبھی بھکشو دھیرتا ، دھیرج ہی کام آئے
سُن ری کوئل باوری ، ہردے آج سمائی
میٹھے سُر میں کوک تو ، میں روؤں سودائی
اجیارے کی آس میں جیون مورا ماند
دھن والوں کی بھور ہے دھن والوںکا چاند
باجے سیٹی ریل کی ، ہردے منہ کو آئے
آشاؤں کی گور پر خاور نیر بہائے
ماریں پاتھر بالکے ، کھویا اپنا ہوش
کڑوے شبد ہیں ساچ کے اور نا کوئے دوش
جگ جگ اندر جال ہے ، سیتلتا بھی آگ
سُر سچا ہے بھیرویں نا ہی دیپک راگ
دَرش دکھائے مادھوی ، من بھیتر میں اور
اِندر جالک مادھری ، کھویا مورا ٹھور
نا رہیو سنسار کی لیلا میں مدہوش
میٹھی بانی بولیو یا رہیو خاموش
گوری تو لیلاوَتی ، میں خاور گم نام
ماٹی موری کھاٹ ہے ، محل ترا بسرام
سُن ری چنچل مادھوی میں خاور سودائی
توری میٹھی واسنا رُوں رُوں آج سمائی
خاور کملا گیگلا جگ سے ہے انجان
دھن والوں کی دھوپ ہے ، برکھا اور پومان
رائے … نصر ملک(کوپن ہیگن،ڈنمارک)
''پراچین بھاشا میں آپ کے دوہوں کا ہر اک شبد اتنا سندر ہے کہ من کو ہلا رہا ہے اوراَنوبھوتی کی کرنیں پردان کرتا ہے۔
بھاشا کی اس سہجتا اور احساس کے اظہار نے پنتھ نیتا کے سنتر پر ایک ایسا سَم موہن رچ دیا ہے کہ ہمیں اَرَمبھ سے لے کر انت تک باندھ رکھتا ہے۔یہ اُدبھت ہے۔ہماری اَنوبھوتیوں کی شانت جھیل میں آپ کے دوہے بھاوناؤں کی ایسی ترنگیں پیدا کرتے ہیں کہ اس کی اَنو گونج بہت دیر تک سنائی پڑتی ہے۔ پرماتما آپ کو سدا سکھی رکھے اور عالی جی کے سنگ آپ کو ادب تلسی کا درجہ دے۔''
(القمرآن لائن 27۔جون2008ئ)
دوہے
آشاؤں کی ہاٹ پر تن بکتا ہے آج
من بھیتر میں ساچ ہو ، آوے جگ کو لاج
اوگُن دھو دے گات کے ٹوٹا من کا ماد
دونوں پاؤں بیڑیاں سیاں کر آزاد
باہر کڑکے دامِنی ، بھیتر آگ لگائے
اَگنی جیسی کامنی ، شیتل ہوتی جائے
رُوپ رسیلا بھور ہے، آنکھ ہوئی سیراب
مُکھڑا تیرا آد سے کرتا ہے بے تاب
حسن کی مالا جاپنا ،ہر پل اپنا کام
تورے عشق کا اوگُنی ، بھولا اپنا نام
رُوپ ترا ہے چاندنی ، بال ہیں سونا تار
گوری تیرے کارنے ، جاؤں جیون ہار
گوری گائے گیت رے ، سجنا من کی آس
کوسوں پھیلی دُوریاں ، صدیوں پھیلی پیاس
ماٹی موری ذات ہے ، میں ماٹی کا پوت
کھشتری ہو تو پارسا ، پاپی جو ہو چھوت
دھرتی موری آگ ہے ، میں دھرتی کی آگ
میں بھولا ہوں ماترے ، بھولا دیپک راگ
مورے من کی آگ پر ساون بھادوں روئے
گہری ندیا آنکھ کی ڈوب نہ جائے کوئے
ماٹی کو سونا کہے ، مورکھ جھوٹ کمائے
تن اگنی کی ساڑ سے ، من بگیا جل جائے
جوت بجھی من آنگنا ، کاری ہے ہر سوچ
مار نہ جی کو لاٹھیاں ، نا اپنا منہ نوچ
بات سُریلی بانسری ، رُوپ سجیلا چاند
چھیل چھبیلی ناریاں ، تورے آگے ماند
کملے خاور دھیان سے چل جیون یوں کاٹ
ماشہ اُوپر نا تلے ، سیدھا ہو ہر باٹ
انتر باہر وارتا ، ہر جذبہ لے بھانپ
سارے پوت کپوت دے ماٹی میّا ڈھانپ
توری جھولی چھیکلا ، پگ پگ تو پھیلائے
لوبھی بھکشو دھیرتا ، دھیرج ہی کام آئے
سُن ری کوئل باوری ، ہردے آج سمائی
میٹھے سُر میں کوک تو ، میں روؤں سودائی
اجیارے کی آس میں جیون مورا ماند
دھن والوں کی بھور ہے دھن والوںکا چاند
باجے سیٹی ریل کی ، ہردے منہ کو آئے
آشاؤں کی گور پر خاور نیر بہائے
ماریں پاتھر بالکے ، کھویا اپنا ہوش
کڑوے شبد ہیں ساچ کے اور نا کوئے دوش
جگ جگ اندر جال ہے ، سیتلتا بھی آگ
سُر سچا ہے بھیرویں نا ہی دیپک راگ
دَرش دکھائے مادھوی ، من بھیتر میں اور
اِندر جالک مادھری ، کھویا مورا ٹھور
نا رہیو سنسار کی لیلا میں مدہوش
میٹھی بانی بولیو یا رہیو خاموش
گوری تو لیلاوَتی ، میں خاور گم نام
ماٹی موری کھاٹ ہے ، محل ترا بسرام
سُن ری چنچل مادھوی میں خاور سودائی
توری میٹھی واسنا رُوں رُوں آج سمائی
خاور کملا گیگلا جگ سے ہے انجان
دھن والوں کی دھوپ ہے ، برکھا اور پومان
رائے … نصر ملک(کوپن ہیگن،ڈنمارک)
''پراچین بھاشا میں آپ کے دوہوں کا ہر اک شبد اتنا سندر ہے کہ من کو ہلا رہا ہے اوراَنوبھوتی کی کرنیں پردان کرتا ہے۔
بھاشا کی اس سہجتا اور احساس کے اظہار نے پنتھ نیتا کے سنتر پر ایک ایسا سَم موہن رچ دیا ہے کہ ہمیں اَرَمبھ سے لے کر انت تک باندھ رکھتا ہے۔یہ اُدبھت ہے۔ہماری اَنوبھوتیوں کی شانت جھیل میں آپ کے دوہے بھاوناؤں کی ایسی ترنگیں پیدا کرتے ہیں کہ اس کی اَنو گونج بہت دیر تک سنائی پڑتی ہے۔ پرماتما آپ کو سدا سکھی رکھے اور عالی جی کے سنگ آپ کو ادب تلسی کا درجہ دے۔''
(القمرآن لائن 27۔جون2008ئ)