کشمش
ڈوبتی شام کے
سرمئی کیف انگیزمنظر سے تحلیل کرنیں
اچانک جدا ہوگئیں
کپکپانے لگا شام کادل
کہیں شام کو قتل کرنے کی سازش ہوئی
آسماں کی جبیں پھر
اسی شام کے خون سے مثلِ قوس ِ قزح
دھیرے دھیرے چمکنے لگی
پھر لرزتی زباں کا کوئی قہقہہ
ان لبوں سے اچھلنے لگا
کوئی ہنسنے لگا !!!!!
٭٭٭
یکسانیت
آج بھی دُور افق میں درخشاں سورج چھپنے لگا
اشک شفق رنگ ہوئے
شمع تخیل جلنے لگی
اورحصارِ غم میں
قلبِ حزیں خاموش کھڑا ہے
آج بھی منظر لاچاری کا پہلے سا ہے
لمحہ لمحہ بیت رہا ہے
ایک کسک زندہ ہے
آج بھی تیری محبت کو
آغوشِ وفا میں لے کر
موجۂ گرداب کی صورت
عشق سمندر کی گہرائی سے ____الجھ بیٹھا ہوں
سوچ رہا ہوں
ہجر گزیدہ برگِ شجر
ڈار سے بچھڑا طائر
آنکھ پہ روشن موتی
اورفلک سے ٹوٹا تارا
خاک بسر بے سمت ونشاں
تیرے عہد وپیماں
تلخ حقیقت سے انکار کہاں؟
٭٭٭
فیصلہ
آج پھر بنجر آنکھوں میں خوابوں کے موتی اُگے
ایک مانوس اور مہرباں وقت میں
نخلِ انجیرپرپھول اک دیکھ کر
بھاگ جاگے مرے
لفظ خاموش ہیں___قلب مسرور ہے
لیکن اِس خواہشوں کے سفر میں
کسی رہ گزر پر پلٹ کر جو دیکھا___ مرے دوست!!
حدِ نظرتک کہیں بھی نہیں تھے
ہمیشہ اسی طرح ہوتا رہا ہے
اپنی فطرت سے مجبور ہو کر____صدائیں لگاتا ہوا واپس آتا رہا
آج بھی خواہشوں کے سفر کا مجھے سامنا ہے
اورسچ ہے یہی
خواہشیں تھک گئیں ناچتے ناچتے____مگر وقت رکتا نہیں ہے
میں خوش بخت ہوں
وقت نے ایک مہلت مجھے اوردی ہے
سو اَب فیصلہ ہے
کہ مانوس اور مہرباں وقت میں
منزلیں سر کروں
٭٭٭
ڈوبتی شام کے
سرمئی کیف انگیزمنظر سے تحلیل کرنیں
اچانک جدا ہوگئیں
کپکپانے لگا شام کادل
کہیں شام کو قتل کرنے کی سازش ہوئی
آسماں کی جبیں پھر
اسی شام کے خون سے مثلِ قوس ِ قزح
دھیرے دھیرے چمکنے لگی
پھر لرزتی زباں کا کوئی قہقہہ
ان لبوں سے اچھلنے لگا
کوئی ہنسنے لگا !!!!!
٭٭٭
یکسانیت
آج بھی دُور افق میں درخشاں سورج چھپنے لگا
اشک شفق رنگ ہوئے
شمع تخیل جلنے لگی
اورحصارِ غم میں
قلبِ حزیں خاموش کھڑا ہے
آج بھی منظر لاچاری کا پہلے سا ہے
لمحہ لمحہ بیت رہا ہے
ایک کسک زندہ ہے
آج بھی تیری محبت کو
آغوشِ وفا میں لے کر
موجۂ گرداب کی صورت
عشق سمندر کی گہرائی سے ____الجھ بیٹھا ہوں
سوچ رہا ہوں
ہجر گزیدہ برگِ شجر
ڈار سے بچھڑا طائر
آنکھ پہ روشن موتی
اورفلک سے ٹوٹا تارا
خاک بسر بے سمت ونشاں
تیرے عہد وپیماں
تلخ حقیقت سے انکار کہاں؟
٭٭٭
فیصلہ
آج پھر بنجر آنکھوں میں خوابوں کے موتی اُگے
ایک مانوس اور مہرباں وقت میں
نخلِ انجیرپرپھول اک دیکھ کر
بھاگ جاگے مرے
لفظ خاموش ہیں___قلب مسرور ہے
لیکن اِس خواہشوں کے سفر میں
کسی رہ گزر پر پلٹ کر جو دیکھا___ مرے دوست!!
حدِ نظرتک کہیں بھی نہیں تھے
ہمیشہ اسی طرح ہوتا رہا ہے
اپنی فطرت سے مجبور ہو کر____صدائیں لگاتا ہوا واپس آتا رہا
آج بھی خواہشوں کے سفر کا مجھے سامنا ہے
اورسچ ہے یہی
خواہشیں تھک گئیں ناچتے ناچتے____مگر وقت رکتا نہیں ہے
میں خوش بخت ہوں
وقت نے ایک مہلت مجھے اوردی ہے
سو اَب فیصلہ ہے
کہ مانوس اور مہرباں وقت میں
منزلیں سر کروں
٭٭٭