دیوانہ (افسانہ)
یہ خلافِ معمول ہی تھاکہ میںصبح سویرے اُٹھتے ہی حجام کے پاس چلاآیا۔شیوتومیںگھرپرہی بنا لیتا ہوںمگربال بنانے کے لیے حجام کے پاس آنا ہی پڑتا ہے۔صبح آنے کا ایک فایدہ یہ ہوا کہ حجام بالکل فارغ بیٹھا تھاالبتہ تین آدمی لکڑی کے بنچ پرپاؤں لٹکائے یوں بیٹھے تھے جیسے زندگی کے منتظر ہوں۔ میں سلام کہہ کرآئینے کے سامنے پڑی گھومنے والی کرسی پر بیٹھ گیا۔کمرسیدھی کرتے ہوئے میں نے اپنے سامنے آئینے میں دیکھا تواُس میں سے اُن افراد کا عکس واضح نظر آرہا تھاجوپیچھے بیٹھے ہوئے تھے۔وہ لوگ اَب بھی خاموش تھے،شایدمیرے آنے کی وجہ سے اُن کا سلسلہ ء کلام منقطع ہوگیا تھایاپھرلفظوں کی پوٹلی خالی ہوگئی تھی۔ جو بھی تھا اُن کے لبوں پر تالے پڑے ہوئے تھے۔ میں نے غور سے تینوں کے چہروں کاجائزہ لیا۔وہی بے چہرگی تھی جوکہ ایسے موقعوں پر ہوتی ہے۔ تاثر سے خالی ان چہروں میں کوئی بھی تو خاص بات نہیں تھی۔البتہ چوہے کی سی مونچھوںوالے اورسرپرتازہ استراپھروائے ہوئے شخص کی آنکھیںکچھ کہنا چاہتی تھیں۔ چالیس کے سن کو چھوتا ہوا پختہ رنگت کاحامل یہ شخص بار بار اپنی گول اور سیاہ آنکھوں کو یوں گھماتا جیسے گاڑی کاپہیہ گھومتا ہے۔پھربے زاری ظاہر کرتے ہوئے باہر دیکھنے لگتا۔کبھی کبھار وہ اپنے ہاتھ کو ساتھ بیٹھے ہوئے دوسرے شخص گھٹنے پریوں مارتا جیسے زندگی کے دروازے پردستک دے رہا ہو۔حجام کی دکا ن میںموجودہم پانچوں افرادسکوتِ پیہم میں مبتلا تھے۔تاہم قینچی چلنے کی آوازسے زندگی کا ثبوت مل رہا تھا۔ ایک لمحے کے لیے میرے دماغ میں یہ بات آئی کہ شاید یہ حجام کی دکان نہیں ،ورنہ اس قدر خاموشی نہ ہوتی۔ میں نے اپنے گلے پرلپٹے ہوئے کپڑے کی سختی کو اُنگلی سے کم کرتے ہوئے اپناسانس تازہ کیااورحجام سے کہا
'' نصرت فتح علی خان کی قوالی ہی سنا دو''
''کون سی سنیں گے ؟''
'' تم اک گورکھ دھندہ ہو''
ڈیک میں کیسٹ ڈالتے ہوئے حجام نے کہا:
''پروفیسر نیازی جب بھی آتے ہیں یہی کیسٹ سنتے ہیں اوریہ عمرحیات بھی بار باراسی کیسٹ کوسنانے کا مطالبہ کرتا ہے''
'' او_____اچھا''
میں نے آئینے میں سے دوبارہ بولتی ہوئی آنکھوں والے عمرحیات کا جائزہ لیا۔اِدھرنصرت فتح علی خان کی آواز برآمد ہوئی اُدھرعمرحیات کی بولتی ہوئی آنکھوں پر پلکوں کا پردہ آن پڑا______وہ اپنے سر کوخاص اندازسے گھمانے لگا،یوں جیسے کسی بات کی تردیدکررہا ہو۔میں نے بھی اپنی آنکھیں میچ کردھیان قوالی پر لگا لیا۔ اَب حجام کی قینچی کی آوازطبلے کی تھاپ اور قوالوں کے الاپ میں کہیں کھو گئی تھی بالکل اُسی طرح جیسے کچھ دیر پہلے ان تین آدمیوں کی آوازیں معدوم تھیں۔ نصرت فتح علی خان کی آواز کا جادوہمیشہ سر چڑھ کر بولتا ہے۔میں تو جب بھی اس کو سنتا ہوں،دل و دماغ کی حالت بدل جاتی ہے،جس احتیاط سے یہ لفظوں کو ادا کرتا ہے کسی اورقوال کے ہاںوہ بات نہیں______ اورپھرآواز______!
اَب جو آنکھ کھولی تو کیا دیکھتا ہوںعمرحیات اُٹھ کرباقاعدہ جھوم رہا ہے اور اُس کے ہونٹ بھی مسلسل ہل رہے ہیں۔پھریکایک ساکت ومبہوت ہماری طرف گھورنے لگتا ہے۔ایک زوردارچیخ اُس کے حلق سے برآمد ہوتی ہے اورپھرحجام سے کہتا ہے:
'' بند کرو ______ میں کہتا ہوں بند کرواسے''
حجام میری طرف دیکھتا ہے تو میں آنکھوں کے اشارے سے اُسے اجازت دیتا ہوں۔سرگوشی کے سے انداز میں حجام کہتا ہے:
'' اسے دورہ پڑا ہے،اَب نہ جانے یہ کیا کیا کہے گا'میں تو کہتا ہوں یہ کھسکا ہوا ہے''
میں نے حجام کی بات سنتے ہوئے دوبارہ آئینے میں سے عمر حیات کا جائزہ لیا۔اَب وہ بنچ پر دوبارہ بیٹھ چکا تھااوراپنی داہنی ہتھیلی سے اپنے گھٹنوںپر مسلسل دستک دیتا جا رہا تھا۔خاموشی نے ایک بارپھرڈیرے ڈال لیے تھے۔کچھ دیر تومیں نے اُس کا جائزہ لیاپھر کسی اَن ہونی کے ظاہر نہ ہونے پرآنکھیں موند لیں۔چند ساعتیں ہی گزری ہوں گی کہ ایک گونج دارآوازنے ماحول پر لرزہ طاری کردیا
'' میں حرامی ہوں______میں؟
اور وہ حرامی نہیں ہیںجودوسروں کاخون چوستے اورماس کھاتے ہیں،کم سِن بچوں اوربچیوں کواستعمال کرتے ہیں،جانوروں اور بے زبانوں کے ساتھ منہ کالا کرتے ہیں۔وہ حرامی نہیں ہیں جوسود دیتے اور منشیات بیچتے ہیں؟اور وہ جوقوم اور دین کی خدمت کا نعرہ بلند کرکے ووٹ لیتے اور بھول جاتے ہیں۔
میں حرامی ہوںتویہ سب کون ہیں؟''
عمر حیات کا اَنگ اَنگ غصے سے کانپ رہا تھا۔یوں لگتا تھا جیسے وہ اچانک کوئی چیز اُٹھا کر ہم میں سے کسی کے سر پر دے مارے گا۔اُس کی بے لاگ چیخ آمیز باتوں کا سلسلہ جاری تھا۔حجام بار باراُسے چلے جانے کے لیے کہتامگروہ اپنی جگہ سے نہ ہلتا۔میں نے حجام سے پوچھایہ روزانہ یہاں آتا ہے تواُس نے بتایا نہیںمگرجب بھی آتا ہے ،پریشان کرتاہے۔اس سے جان چھڑانا مشکل ہوجاتی ہے۔عمرحیات بولے جارہا تھا
'' چاند میں بیٹھ کر جب تم نے پانچ سائے نیچے پھینکے تھے ، میں انھیں دیکھ رہا تھا۔اُن کے چہرے دوسری طرف تھے لیکن میں نے کوشش کر کے سب کو پہچان لیا تھا، یہ سائے ،اُلو،سور،بندر،بلی اور گائے کے تھے۔اُن سب کے سرنیچے اور پاؤں اُوپرکی طرف تھے۔تم نے انھیں اُلٹا کر پھینکا تھا۔ میںبے دھیانی میں درختوں کے جھنڈ سے باہر نکل آیا تھا، تب اچانک یہ پانچوں سائے سانسوں کے راستے سے میری رگوں میں اُتر گئے اور پھر میرے خون میں شامل ہو گئے۔ میں بہت چیختا چلاتا رہا مگروہاں میری مدد کے لیے کوئی نہ آیا۔اَب میں تھا ______اورصحراؤں کی ویرانی تھی۔پھر میں ایک سمت میں چلنے لگا۔کتنے ہی سال چلتا رہا تب کہیں جاکرمجھے میرے جیسے لوگ ملے۔ میں اجنبی تھا اوروہ مجھے اپنے لیے خطرہ سمجھتے تھے،میری بات کا اعتبار نہیں کرتے تھے______پھر انھوں نے مجھے قتل کرنا چاہالیکن تم نے مجھے لکڑی کے تختے پر بٹھا کرپانی کی لہروں پر ڈال دیا۔میرے خون میں اُترے ہوئے سائے مجھے اَب بھی بے چین کرتے تھے۔ میں پہاڑوں ، جنگلوں،بیابانوں اور غاروں میں پناہ ڈھونڈتا رہامگرسکون کہیں نہ ملا۔میرے پاؤں زخمی ہوچکے تھے اور میرے ہونٹوں پرپیپڑیاں بن چکی تھیں۔
لق و دق صحراؤں میں چلتے چلتے میں پیاس اور بھوک سے نڈھال ہو چکا تھا۔تب میںزمین پر گرپڑا اورتڑپتے ہوئے اپنے پاؤں زمین پررگڑنے لگا______ میرے پاؤں ریت سے اُلجھ اُلجھ کرریتلے اور گرم ہو چکے تھے پھرتپتے ہوئے صحرا کے سینے سے چشمہ جاری ہوگیا اورمیں نے خوب سیر ہوکرپانی پیا اوراپنے اندراورباہر کو دھویا۔''
'' اوئے عمرحیات______ چل اُٹھ اَب نکل ادھرسے''
حجام نے ایک بارپھر اُس سے کہا مگروہ یوں اپنی گفتگو میں محوتھاجیسے اُس نے کچھ سنا ہی نہ ہو۔حجام نے اُسے بازو سے پکڑ کراُٹھاناچاہامگرناکا م رہا۔اُس نے اپنا بازو چھڑاتے ہوئے حجام سے کہا،چائے منگواؤپھرچلتا ہوں۔لیکن حجام اُسے چائے پلانا نہیں چاہتا تھا۔
'' دو پہاڑوں کے بیچ کیاہوتا ہے______ تم جانتے ہو۔ روحیں توہزاروں سال سے اُتر رہی ہیں اور اُترتی رہیں گی۔میرے اندرپانچ سائے لڑتے رہیں گے اور تم چاند میں بیٹھے رہو گے۔''
میںعمرحیات کی باتیںسُن کربہت دُور نکل آیا تھا،اتنی دورکہ اگرعمرحیات پھر نہ چیختا تومیںواپس نہ پلٹ سکتا۔
'' میں ہوںحرامی______ میں؟ ______اگرمولوی کے ہاں پیدا ہوا ہوتا تولوگ میرے ہاتھ چوم رہے ہوتے،پاؤں میں بیٹھتے اورنذرونیازدیتے۔تم مجھے حرامی کہتے ہو______تم؟ میری بہن کے پرس میں کنڈوم نہیں ہوتا______میںتودوسروں کے گھروں میں نہیں جھانکتا______ اورتم؟ _____تم اور تمہاری بہن______''
قینچی کی دھار کام دکھا چکی تھی۔عمرحیات کی پسلیاںخون آلود تھیں اوروہ ایک طرف بے سدھ پڑا تھا۔
ooo
روشنی (افسانہ)
کوٹھی کے دالان میںزمردیں گھاس پر شبنمی قطرے ہلکی ہلکی ہوا سے رقص کناں تھے۔وجہی حسبِ معمول ننگے پاؤںٹھنڈی گھاس کا لمس اپنے وجود میں اُتاررہاتھا۔ابھی سورج پوری طرح بلند نہیں ہوا تھا۔مشرق کی طرف سے اُٹھنے والی لالی کوٹھی کے چھت پر پھیلے ہوئے سفید جنگلے کواپنے رنگ میں رنگ رہی تھی۔آم کے بے ثمرپیڑپرسے کوؤںاورچڑیوںکی آوازیں اُٹھ رہی تھیں۔چیکوکے درخت کی جھکی ہوئی ٹہنیوںکے کناروں سے اوس قطرہ قطرہ سبزگھاس پر ٹپک رہی تھی۔ہواسے گرجانے والے پیلے پتے بھی اپنی موجودگی کا احساس دلا رہے تھے ۔نومبرکی اس صبح کو خنکی نے پوری طرح اپنی لپیٹ میں لے رکھا تھامگرموسم گئے برس کی طرح سرد نہیں ہوا تھا۔پچھلے سال توا ن دنوں میں غضب کی سردی پڑی تھی۔وجہی بانسی ساختہ دائروی کرسی کوگھسیٹتے ہوئے باہر لے آیاتھا۔اُس کے ایک ہاتھ میںباجرے کی تھیلی تھی اور دوسرے میں پیتل کی تھالی۔دایاںہاتھ تھیلی میں ڈال کر اُس نے ایک خاص ادا سے باجرا نکال کر تھالی میں ڈالا،دوسری اور تیسری بار یہی عمل دہرا چکا توتھیلی کو وہیں گھاس پرایک طرف رکھ کراُٹھ کھڑا ہوا۔تھالی ہاتھ میں لیے وہ چیکوکے درخت کی جانب بڑھا۔چیکو کی ٹہنی سے بندھی ہوئی طشتری میں اُس نے باجرہ ڈالااورواپس آکراپنی جگہ پر بیٹھ گیا۔بیرونی دروازے کے اُوپرسے ہاکر اخبارپھینک کراگلی منزل کی جانب بڑھ چکا تھا۔وجہی کے وجود میں ایک بارپھرحرکت پیدا ہوئی ۔اخباردونوں ہاتھوں میں پھیلاکرتیزی سے کچھ ڈھونڈنے لگا۔اُسے اپنی تصویرنظرآگئی۔گزشتہ روز اُس نے ایک این جی او کے تعاون سے چلنے والے اسکول کو بلیک بورڈز اور ڈیسک فراہم کیے تھے اوردو بہترین طالب علموں کے ایک سال کے اخراجات اوروظیفے کا ذمہ لیاتھا۔دوسرے صفحے پرایک اور رپورٹ کی سُرخی میں اس کا نام موجود تھا۔ اخبار نے چوکٹھے میںاس کے بیان کو چھاپاتھا۔یہ گزشتہ سہ پہرکوٹیکنیکل کالج میں ہونے والی تقریب میں اس کے خطاب کی رپورٹ تھی۔
وجہی نے اخبارایک طرف زمین پرڈالتے ہوئے اپنے دونوں بازوؤں کوایسے پھیلایا جیسے آسمانوں کی وسعت کوسمیٹ رہا ہو۔پھرانتہائی پھرتی سے اپنی نشست سے اُٹھ کر ورزش کے سے انداز میں اپنے بازوؤں کو زور زور سے گھمانے لگا۔چندمنٹ کی اس مشق کے بعدوہ کوٹھی کے اندرچلاگیا۔غیرملکی برتنوںسے آراستہ باورچی خانے میںداخل ہوا۔گیس کے چولھے کودیاسلائی دکھائی اورنل سے کیتلی میں پانی بھرنے کے بعداُسے چولھے پرچڑھادیا۔اعلیٰ قسم کی کافی تیارکرنے کے بعدبڑے پیندے کے پیالے میںڈالی اورپھرباہردالان میں چلا آیا۔
یہ وجہی کے روز کا معمول تھا۔ٹھیک نو بجے تک وہ تیار ہوکر اپنے دفترچلاجاتا ۔اُس نے یہ کوٹھی شہر کے ایک کونے میں بڑی چاہ سے بنائی تھی مگراسے گھر بننا کبھی نصیب نہ ہوا۔پندرہ سال پہلے اُس کی شادی اُس کی چچازاد کے ساتھ دُھوم دھام سے ہوئی تھی۔والدین کی اکلوتی اولاد ہونے کے ناطے سے ہر رسم نبھائی گئی۔دُورنزدیک کے سبھی رشتہ دار اورکاروباری دوست شادی میں شریک ہوئے تھے۔ شادی کو ایک برس بیتا،دو،چار اورپھرپندرہ برس بیت گئے مگروجہی کاآنگن بنجرہی رہا۔صحراؤں میں برسنے والی بارشیں اپناثبوت مٹاتی رہیں۔ اسی عرصہ میں والد دُنیا سے اُٹھ گئے اور ماں کی بھی تمام امیدیںدَم توڑچکی تھیں۔ڈھکے چھپے لفظوں میں کئی ایک بار ماں نے دوسری شادی کاکہابھی تووجہی نے ہنس کرٹال دیا۔باپ کے مرنے کے بعدساری ذمہ داریاںوجہی کے سرآپڑی تھیں۔ وہ کاروبار میں یوںاُلجھاکہ بیوی کوپڑھی ہوئی کتاب کی طرح شیلف میں رکھ کر بھول گیا،لیکن اتنابھی نہیں،کتاب سے گرد جھاڑنے کے لیے کبھی کبھارگھرہوہی آتا۔ وہ شہر کی کوٹھی میں تنہارہتا تھا،بالکل تنہا۔خانساماں کھاناتیارکرکے برف خانے میںرکھ جاتا اور پھر صبح اُس کے دفترجانے سے پہلے آجاتا۔ ایک بے زبان چوکیدار تھا۔مالی اور خاکروب اُس کے چلے جانے کے بعد آتے اوراُس کے آنے سے پہلے ہی پلٹ جاتے۔البتہ ہفتے میں دو ایک مرتبہ کوٹھی میں کوئی تقریب ضرور برپا ہوتی جس میں اُس کے قریب ترین اور معتمد ساتھی شریک ہوتے اور کبھی کبھار کوئی نیا بھی آجاتا۔
لوگوں کا کہناتھا کہ بے اولادی کے سبب اُس کے دل پر بہت اثر ہوا ۔وہ شہر کے اسکولوں اور کالجوں میں خودجاتااوروہاں سے طالب علموں کا انتخاب کر کے اُن کے اخراجات اپنے ذمے لیتا۔اُن اداروں کی ضروریات کا خیال رکھتا۔کبھی ٹھنڈے پانی کی مشین نصب کروا دیتا،کبھی ڈیسک،کبھی کھیلوں کا سامان،کبھی غریب طالب علموںکا یونی فارم۔یہ سلسلہ کم و بیش ہر دوسرے ادارے کواپنے اندر لیے ہوئے تھا۔
بیشترملکی اور غیر ملکی این جی اوزکے سرکردہ افراداُس سے رابطے میں رہتے۔اُس کے مشوروںکوا ہمیت دیتے۔جن منصوبوں کو وہ اولیت دیتا،بلاجھجک وہ لوگ اُس کی ہاں میں ہاں ملا دیتے۔شہرکے نام وَرصحافی،سیاست دان،بیوروکریٹ،تاجراوراساتذہ بھی اُس کے دفترآتے اورتبادلۂ خیالات کر کے فیض یاب ہوتے۔
سلسلۂ روز وشب اسی اندازسے آگے بڑھتاجارہاتھا۔کبھی کبھاراُسے مشورہ دیاجاتاکہ وہ اپنے فلاحی کاموں کو لڑکیوں کے تعلیمی اداروں تک بڑھائے۔وہ ایسے مشوروں کو توجہ سے سُنتااورپھرکہتا:
''اچھے وقت کا انتظار کیجیے،میں کچھ سوچتا ہوں۔'' (جاری ہے)
اس کے وظیفہ خوار نوجوانوں کواُس کے دفتر میں بلا روک ٹوک آنے کی اجازت تھی۔وہ کسی بھی وقت اپنی ضرورت کے لیے یہاں آسکتے تھے۔کبھی بھی فون کرسکتے تھے،کسی بھی دوسرے نوجوان کو لا سکتے تھے۔دفتر کے ملازمین کوسختی سے ہدایت تھی کہ وہ روشنی بانٹنے کے اس عمل میں سستی کا مظاہرہ نہ کریں۔جس طالب علم کے لیے جووظیفہ مقرر ہے وہ بروقت دیا جائے۔اس اچھے کام میں دیر اُس کے لیے ناقابلِ برداشت تھی۔
اُس روز کالج کی سالانہ تقریبات کے سلسلے کی آخری کڑی تھی۔وہ بہ طورمہمانِ خصوصی مدعوتھا۔اُس نے نئے طلبا کے لیے وظیفوں کا اعلان کرنا تھا اورپُرانے طالب علموں کو انعامات دینا تھے۔وجہی نے اپنے معمولات میں ذرا رد وبدل کرکے اُس تاریخ کے لیے خود کو فارغ کر لیا تھا۔جوں ہی اُس کی گاڑی کالج کے گیٹ سے داخل ہوئی طلبا نے اُس کے حق میں فلک شگاف نعرے لگائے۔دوکم سن طالب علموں نے آگے بڑھ کر اُس کا استقبال کیا اورپھول پیش کیے۔وجہی کے ہاتھ شفقت سے اُن کے سروں تک پہنچ گئے تھے۔اساتذہ نے اُس سے مصافحہ اور معانقہ کیا۔وہ سفید لٹھے کے لباس میں یوں دِکھ رہا تھا جیسے کوئی فرشتہ آسمان سے اُترا ہو۔اساتذہ اُسے اپنے دائرے میں اسٹیج تک لے گئے۔اسٹیج پر موجود محکمہ تعلیم کے افسران نے اُٹھ کراُسے گلے لگایا اوردرمیانی نشست پر بیٹھنے کی درخواست کی۔تقاریر کا سلسلہ شروع ہوا۔اسٹیج سیکرٹری نے وجیہ اختر کی علم دوستی اورطلبا پروری کے جذبے پر روشنی ڈالی اورکالج پرکیے گئے احسانات کاتذکرہ کیا۔دیگر مقررین نے بھی اُس کے جذبے کو سراہا۔وہ سامنے بیٹھے ہوئے طلبا کے مسرورچہروں کودیکھ دیکھ کر خوش ہوتارہا۔اسٹیج سیکرٹری نے انتہائی اَدب سے خطاب کے لیے اُس کا نام پکارا۔وہ وقار کے ساتھ اپنی نشست سے اُٹھااوردھیمے اندازسے اپنی گفتگو شروع کی۔ ابھی وہ یہی کہہ پایا تھا:
'' میرے قابلِ فخر بچو!''
کہ ماحول میں شور بلند ہوا۔اساتذہ اسٹیج کی طرف لپکے۔وجہی پرپنڈال میں سے کسی نے کانچ کی بوتل پھینکی تھی۔اُس کے داہنے رُخسار سے لہو کا چشمہ پھوٹ بہاتھا۔لٹھے کی سفید قمیص پر خون نے پھول کھلا دیے تھے۔اُسے چندلمحوں میں ہسپتال پہنچا دیا گیا۔تقریب درہم برہم ہو گئی۔ حملہ آورکا علم نہ ہوسکا۔پرنسپل صاحب خود اُس کے ساتھ ہسپتال گئے اورمرہم پٹی تک وہیں رہے۔پرنسپل نے شرمندگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا:
'' جناب !میں نہیں جانتا ہوں،یہ گھٹیا حرکت کس کی ہے مگر میںاحتجاجاً دو روز تک اپنا ادارہ بند رکھوں گااوروالدین کوکالج بلاؤں گا۔''
وجہی نے نرم لہجے میں کہا
'' نہیں پروفیسر صاحب!____آپ ایسا کچھ نہیں کریں گے۔میںٹھیک تو ہوں۔''
'' دیکھیے ناں اگربوتل آنکھ سے ٹکراجاتی تو بینائی ضائع ہوسکتی تھی''
'' ہاں مگر ہوئی تو نہیں____بس آپ یوں کیجیے کہ یہ بات اخبارات تک نہ جانے پائے۔''
'' آپ بے فکر رہیے، ایسا ہی ہوگا۔''
پرنسپل نے کہا اوروجہی کو ہسپتال سے لے آیا۔
اس واقعے نے وجہی کو محتاط کردیا تھا۔اَب اُس سے ملنے والوں کو مکمل آزادی نہیں تھی۔دفترمیں آنے والے طلبا سے کہہ دیا گیا تھا جو بھی بات ہوفون پرکر لیا کریںاوروظیفے کے حصول کے لیے صرف شعبہ حسابات کے سربراہ سے رابطہ کیا جائے۔اس برس اُس نے کسی دوسرے ادارے کی تقریب میں شرکت نہ کی۔
اگلے برس کااپریل اپنے اختتام کی طرف بڑھ رہا تھا۔کوٹھی کے وسیع صحن کے درمیان فرشی نشست پرتکیے اہتمام سے رکھے ہوئے تھے اور ان سے پشت ٹکائے ہوئے چند افرادپورے انہماک سے مقامی گلوکارکی آواز میں مشہورغزل خواںکی گائی ہوئی غزل
غم سے ہوں بے نیاز پیتا ہوں
ہے کچھ ایسا ہی راز پیتا ہوں
لوگ پانی ملا کے پیتے ہیں
میں تو نظریں ملا کے پیتا ہوں
سن رہے تھے ۔سامعین میں وجہی بھی شامل تھا۔ان تمام کے ہاتھوں میں بغیرسوڈاملے شراب کے گلاس موجود تھے،البتہ برف کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے گلاسوں میں ضرور موجود تھے۔گانے کی محفل ختم ہوئی مگرجام کادورچلتا رہا۔رات نصف سے زیادہ بیت چکی تھی۔کم ظرف لڑکھڑا کر گررہے تھے۔ اسی اثنا میںکوٹھی میں ایک گاڑی داخل ہوئی۔وجہی کے خاص آدمی کے ساتھ ایک اورشخص گاڑی سے اُترا۔اُس نے دونوں کو گھورا۔پھرہاتھ کے اشارے سے اندرجانے کو کہا۔وہ دونوں اندرچلے گئے۔
وجہی نشے میں دُھت لوگوں کو وہیں چھوڑ کراندرچلاآیا۔خاص آدمی نے کہا:
'' یہ صہیب ہے،اس کے تعلیمی اخراجات اپنے ذمہ لینے کا آپ نے اعلان کیا تھا۔''
'' او______ہاں_____تم جاؤ ''
خاص آدمی باہرنکل جاتا ہے۔وجہی نوجوان کو ہاتھ سے پکڑکر ایک کمرے میں لے جاتا ہے۔پھرکوٹھی کو روشن کرنے والے تمام قمقمے گل ہوجاتے ہیں۔
ooo
شناخت
دماغ کے اندرچیونٹیاںسی رینگ رہی تھیں۔یوں لگتا تھا جیسے اُس کی کھوپڑی میں پیوست ہڈیاں اورنسیں ریل کی پٹری ہوں اور ان پرطویل مسافت طے کرنے والی ریل کا سفر جاری ہو۔خیالات منتشر اوربے سمت۔دو ایک مرتبہ تواُس نے اپنی نشست بدلی مگراُس کی بے قراری میں کمی ہوکر ہی نہ دی۔دفتر کے سیاہ شیشوں کے اُس پارصدیوں کی رفاقت طے کر آنے والے بوڑھے پیپل کی پھیلی ہوئی بانہیںاپنے ہی وجودسے لپٹنا چاہتی تھیں۔ایک بچہ بہت دیر سے پیپل کی شاخوں کو پکڑنے کی کوشش کر رہا تھا مگرہر بار ناکام ہوجاتا۔
بہ ظاہر اُس کی نگاہیں بچے کی حرکات و سکنات پر مرکوز تھیں لیکن اُس کے دماغ میں عجیب سے جھکڑ چل رہے تھے۔مختلف رنگ بہ یک وقت اُس کی حیرتوں میں اضافہ کر رہے تھے ، ہزارہا تصویریں اُس کے تصور میںجاگتی بجھتی تھیں۔اُس کے دھیان میںایک تصویر اُبھری _____کافکا _____؟ نہیںکانٹ یاپھرڈیکارٹ _____ او_____ نہیں۔ ژاں پال سارتر _____ نہیں ،شاید سگمنڈ فرائڈ یا پھررولاںبارتھ _____ ٹیگور،اقبال،فیض،جالب،بیدی،محمود درویش،فراز_____ نہ جانے کس کی تصویر تھی؟ ایک بار پھر اُس نے تمام خیالات کو جھٹک کر دماغ پر دستک دینے والے عکس کے متعلق سوچا۔اس بار بھی کوئی واضح شبیہ ظاہرنہ ہوئی۔وہ اپنے مغز کونکال ہتھیلی پررکھ کراُس تصویر کو اپنی آنکھوں سے دیکھنا چاہتا تھا۔ وہ چاہتا تھا کہ تصویر مجسم ہو کراُس کے سامنے کھڑی ہوجائے اور وہ اپنی بیت جانے اور رہ جانے والی گھڑیوں سے متعلق اُس سے گفتگو کر لے۔
'' میں منتقم ہوںیامزاحمت کار؟''
اُس نے سوچا اورپھرنہ چاہتے ہوئے بھی کمپیوٹر''کی بورڈ''کوباہر کھینچ کر دفتری کاموں میں اُلجھ گیا۔وہ ان کاموں میںاُلجھتا ہی تھا کیوں کہ اُس نے کبھی بھی انہماک سے دفتری کام نہیں کیا تھا۔غالباً روزی روٹی کے چکر میںاُس نے نوکری کرلی تھی۔
شام کے پانچ بجے حسب معمول جب وہ اپنے دفتر سے نکلا توگردیزی صاحب کا کمرا کھلا ہوا تھا،دوتنومندبل کہ سانڈ کی سی جسامت والے نوجوان میز کے سامنے پڑی کرسیوں پر یوں بیٹھے تھے جیسے کبھی نہ اُٹھنے کا تہیہ کر رکھا ہو۔جٹ صاحب کے کمرے میں اُن کا پرسنل سیکرٹری بیٹھا کام کر رہا تھا۔بگھیوصاحب اپنے دفترسے نکل چکے تھے اوراُن کا ڈرائیور دستی بیگ تھامے تیزقدموں سے آگے بڑھ رہا تھا۔ایک قطار میں بنے ہوئے ان دفاتر میں سے ہر ایک کے سامنے ناموں کی تختیاںآویزاں تھیں۔چودھری مرتضیٰ احسن ، راجانوروزسلطان،سید احتشام الدین، سردار سمیع اللہ خان، ملک ریاض الحسن، سلطان جہاں زیب قاضی،راحیل جو نیجو،نسیم اخترچانڈیو، فیصل بگٹی،قدرت اللہ مگسی،عظمت خان جمالی اور خود اُس کے اپنے دفتر کے باہر بھی اُس کا نام_____ احمدحبیب لکھا ہواتھا۔ان ناموں کو وہ روزانہ دیکھتا تھا اورہر روز نفرت سے اُس کاحلق سوکھ جاتا۔قبائل پر اِ ترانے والے ان لوگوں سے اسے اس قدرشدید نفرت تھی کہ اُس کی زبان خود سے ہی گالیاں بکنا شروع کردیتی اور وہ چاہتا کہ ان تمام کتبوں کو اکھاڑ پھینکے۔بعض اوقات اُس کے دفتر میں تعارف کراتے ہوئے کوئی اُسے اپنی قبائلی شناخت بتاتا تو وہ ایک دَم غصے سے بے قابو ہونے لگتا۔ دو دِن پہلے بھی کسی نے اُسے ایک جاگیردار منسٹر کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا تھا کہ وہ اُس کا عزیز ہے۔ تب اس نے فائل اُٹھا کر اُس کے ہاتھ میں تھماتے ہوئے کہا تھا:
'' جاؤ یہ کام انھی سے کروالو''
چہل قدمی کے لیے اُس نے شہر سے دور کاایک علاقہ منتخب کر رکھا تھا۔علی الصبح جب وہ بیدا ر ہوتا توگاڑی نکال کروہاں چلا جاتا پھروہاں موجود چھوٹے چھوٹے ٹیلوں پرگھومتا، پھلائی کے پست قددرختوں کے جھرمٹ سے نکل کرایک ٹیلے پر بنے ہوئے قبرستان تک بھی جاتا ۔یہ علاقے کا بہت بڑا اور پرانا قبرستان تھا۔اندازہ نہیں کتنی صدیاں پہلے یہاں پہلا انسان آکر آباد ہوا تھا۔ صبح کی سیر کے بعدوہ جب لوٹتا تو خود کوہلکا پھلکا محسوس کرتااور یوں اس کے دفتر کا آغاز ہوجاتا۔دفتر کے وہی معمولات ہوتے جو اُسے سخت ناپسند تھے۔ ایک دن تو اُس کے معاون نے یہ تک کہہ دیا تھا:
'' صاحب ریٹائرمنٹ کیوں نہیں لے لیتے آپ؟''
وہ جانتا تھا معاون نے یہ بات کیوں کہی تھی_____ تب اُس نے صرف اُسے گھورا اور فائل میں خود کو مصروف کر لیاتھا۔
جب وہ گھر پہنچا تب بھی اُس کے ذہن میں اُبھرنے والا خاکہ نامکمل تھا_____ایک مبہم تصویرجاگتی اور دفعتاً محو ہوجاتی۔وہ اس کرب کو
صبح سے جھیل رہا تھا۔ اُس نے خود کلامی کرتے ہوئے کہا:
آخر ان نام وَر لوگوں کا عکس میرے دماغ پر کیوں روشن ہوتا ہے؟ کیا یہ مزاحمت کار تھے یا منتقم؟ان کے ہاتھوں میں تلواریں تو نہیں تھیں _____ پھر یہ کیسے مزاحم ہو سکتے تھے یا انتقام لے سکتے تھے؟_____ یہ کیسی مزاحمت اور کیسا انتقام تھا جہاںتلوار کی بجائے احساس اورلفظوںسے جنگ لڑی جا تی تھی۔تو کیا میں بھی انھی میں سے ہوں_____ لفظوں کے سہارے جینے ،لڑنے اور مرنے والا_____؟ کیا اس پیکار میں مجھے بھی ناکام ہونا پڑے گا؟ہواؤں کے اُوپر اور سمندروں کی تہوںپر حکمرانی کرنے والوں کا میں کبھی کچھ نہیں بگاڑ پاؤں گا ؟کیا وہ سبھی لوگ مات کھا چکے تھے_____؟ تو پھر میں انھیں کیوں یاد کررہا ہوں؟شکست خوردہ لوگوں کو بھلا دیناہی بہتر ہے_____ !
اُس کے من بھیتر سے گونج دار آواز برآمد ہوئی
'' نہیں_____ وہ سب اپنے اپنے زمانے کے فتح یاب لوگ تھے_____ راستہ دکھانے والے اور سچ کی خاطر دکھ اُٹھانے والے،وہ ہارے ہوئے نہیں تھے،تم چت ہو رہے ہو۔''
اُس کے دماغ میں چیونٹیاں اُسی طرح رینگ رہی تھیںاور وہ پہلے سے زیادہ بے تاب تھا۔اگلی صبح دفتر پہنچا اوراخبار اپنے سامنے پھیلا دیا۔اخبار میں کوئی بھی خبر اُسے عجیب نہیں محسوس ہو رہی تھی۔ ''چینی خلابازوں کی خلا میں چہل قدمی'' دوسری سرخی تھی''امریکی طیاروں کی سرحدی خلاف ورزی،مسجدپرحملہ،کئی بے گناہ ہلاک اور زخمی'' ایک اور خبر تھی'' بستی عالمانی کے'' مقیم'' نامی شخص نے اپنا نومولود بیٹا سوروپے میں فروخت کردیا۔''
ان جیسی کئی ایک خبریںاور بھی تھیں _____ کچھ دیر بعدوجدانی صاحب اُس کے کمرے میں آئے تو کہنے لگے:
''آج اخبار میں ایک نہایت عجیب خبر شائع ہوئی ہے۔کوئی گروہ قبروںکے کتبے اکھاڑ رہا ہے۔''
'' کیا_____ کیوں؟''
'' کیا خبر؟''
''کفن تو نہیں چرائے جاتے؟''
'' نہیں_____ صرف کتبوں سے متعلق لکھا ہوا تھا''
'' کتبے چرانے سے آپ کیوں پریشان ہو رہے ہیں؟''
'' شناخت مٹ جاتی ہے نا''
'' تو کیا مدارس و مساجداورقرآن کے نسخوں پر بمباری سے شناخت نہیں مٹتی؟''
''آپ سیاست نکال لائے ہیں''
'' سیاست_____؟ میں نے تو شناخت کی بات کی ہے''
'' دہشت گردوں کا خاتمہ ضروری ہے''
'' زندوں کو مار دینا چاہتے ہیں اور قبروں کے کتبے ہٹنے پرفکرمند ہیں؟''
'' اچھا خیر_____ آج منسٹرصاحب کے یہاںڈنر ہے۔ میںجارہا ہوں،شام کووہیں ملاقات ہوگی۔''
احمد حبیب نے نکٹائی کوڈھیلا کیا اور پھرتیزتیز سانس لینے لگا۔گراں طبعی تو اُس کی زندگی کا لازمی جزو بن کر رہ گئی تھی۔اُس کی دل چسپی کے لیے شاید اس دنیا میں کچھ بھی نہیں بچا تھا۔کوئی بات اُس کے لیے نئی نہیں تھی اور نہ ہی کوئی خبرعجیب۔
''جہاں زندوںکومسجدوں کے اندر جلا کر خاکستر کردیا جاتا ہو_____ کم سنوں سے اجتماعی زیادتیاں ہوتی ہوں،مفلسوں کو خود کشی پر مجبور کیا جاتا ہو، وہاںقبرستان کی فکر_____؟''
اس نے خیالات کے بھاگتے ہوئے گھوڑے کی لگام کھینچی اور کام میں اُلجھ گیا۔اس روز بھی اس کامعاون اسے کچھ کہنا چاہتا تھا مگر اس نے اُسے نظر انداز کراپنے لیے سہولت پیداکرلی۔
وقت دریا کی طرح آگے ہی بڑھتارہااوروہ اپنی لگی بندھی زندگی میں۔
کچھ دن بعدپُھلاہی والے قبرستان میں اُس نے وہ منظر دیکھ لیا جس کے متعلق وجدانی صاحب نے اُسے بتایا تھا۔ کوئی شخص صبح سویرے ہی
سے قبروں کے کتبے اکھاڑنے میں مگن تھا۔ و ہ آہستگی سے اُس کی جانب بڑھنے لگا۔تخریب کار نے پہلے ایک قبر سے کتبہ اُکھاڑ کراسے زمین پر پٹخا پھراس پر مسلسل ہتھوڑے برسا کر چکنا چور کر دیا،پھر دوسری اور تیسری قبر کے کتبے کے ساتھ بھی یہی سلوک کیا۔
احمد حبیب نے یہ سارا منظر جھاڑیوں کی اوٹ سے دیکھ تو لیامگر اَب اس میں مزید حوصلہ نہیں رہا تھا۔وہ تیز قدموں سے تخریب کار کی طرف بڑھتا گیا۔تخریب کار نے اپنا چہرہ چادر سے ڈھانپ رکھا تھا اور اس کے ایک ہاتھ میں بڑا ہتھوڑا اوردوسرے میں چھنی تھی۔اگرچہ اس بات کا خطرہ تھاکہ تخریب کار اسے نقصان پہنچادے گا مگر پھر بھی اُس نے ہمت سے کام لیا اور دبے قدموں اُس قبر تک پہنچ گیا جس کا کتبہ اکھاڑا جا رہا تھا_____ اکھاڑنے والا پورے اطمینان سے کارِ تخریب منہمک تھا۔ احمد حبیب نے دفعتاًتخریب کار کے چہرے سے جب نقاب کھینچا تواُس کا دَم حیرت سے گھٹنے لگا_____ بہت مشکل سے اور ضبط کے بعد اس کی زبان سے ایک جملہ برآمد ہوا:
وجدانی صاحب!_____آپ؟
OOO
بے انت (افسانہ)
توت کی مخروطی اُنگلیوںپرجگہ جگہ ااُبھارظاہرہورہے تھے…کہیںکہیںیہ انگلیاں زمرد سار ہونے لگی تھیں…بارش کے ننھے منھے قطرے ان اُبھرتے اورظاہرہوجانے والے حصوںپرسے یوں پھسل رہے تھے جیسے توت کوبارکے لطف سے آشناکرکے رُخصت ہورہے ہوں…ہمیشہ کے لیے، کبھی نہ پلٹنے کے لیے۔صحن کی کچی مٹی بارش کے پانی سے گارے میںبدل چکی تھی…تب اچانک اس کے دھیان میںچاک آگیااورایک کمہارکمال ہنرمندی سے اپنے سامنے پھیلے ہوئے چاک کے اُوپر اس گارے کوچڑھانے لگاجواس کے صحن کی مٹی سے بارش نے خودبہ خودبنادیاتھا۔ہنرمندہاتھ اپنی فنکارانہ اداؤںاورسبک مزاجی سے چاک پرچڑھی مٹی کے گردطواف کررہے تھے…اوریہ مٹی بہ یک وقت کئی صورتوں میں ڈھل گئی،کئی شکلیںتخلیق ہوئیں۔پھران ہاتھوںنے ایک انسانی چہرہ تخلیق کیا… وہ چہرہ جوایک زمانے سے اس کے دل ودماغ میںاپنی جگہ بناچکاتھا۔خوب صورت،معصوم اور کھلکھلاتا چہرہ…دفعتاًاُسے اپنی گودمیںگرمی محسوس ہوئی۔اس کے پہلوگرمی کی شدت ،نٹ کھٹ اورشریربچے کے لمس سے چٹخنے لگے…یوںجیسے اس کی جھولی میںکسی نے سُرخ انگارے انڈیل دیے ہوں۔وہ بے تابی سے اپنی جگہ سے اُٹھی اوراپنادامن جھاڑکرکچی مٹی سے بنے ہوئے باورچی خانے میںجا بیٹھی ۔ مٹی کی ہانڈی ٹھنڈی ہوگئی تھی۔اس نے جلدی سے خاشاک کے تنکے بجھے ہوئے چولھے میںرکھے اور پھر دائیںگھٹنے پرہاتھ رکھ کرقدرے جھکی اورپھربجھتی ہوئی راکھ میںچنگاریاںتلاش کرنے لگی…ابھی چند لمحے پہلے جس قدر اُس کی جھولی سلگ رہی تھی اس سے کہیںزیادہ یہ چولھاسردہوچکا تھا۔ پھونکیںمارمارکراُس نے خودکونڈھال کرلیامگرکوئی چنگاری سُلگ کرہی نہ دی…اپنے پھیلے ہوئے پینڈے کواُس نے سمیٹااور دونوں ہاتھ گھٹنوںپررکھ کراپنی کمرسیدھی کی۔باورچی خانے کی پست چھت کے ٹیڑھے شہتیرمیںٹکی ہوئی دیاسلائی کی ڈبیااس نے کھینچی اورکچے فرش پر گرا دی… اورپھرسے اپنے دونوں ہاتھ گھٹنوںپررکھ کرزمین پرڈھیرہوگئی۔اُس کے سسرکامعمول ہے کہ وہ ظہرکی نمازپڑھنے سے دوگھنٹے پہلے دوپہرکاکھاناکھاچکتاہے اوراگرذراسی بھی دیرہوجائے تووہ ساری متانت، پرہیز گاری اور اخلاص ایک طرف رکھ کراس کے خاندان کے بخیے اُدھیڑدیتاہے۔اپنے پرکھوںکی قبریںکُھدنے کے خوف سے وہ اپنی ساری قوتیںجمع کرکے چولھے میںآگ سلگانے کی کوشش کرتی ہے…دھریک کی خشک ٹہنی سے اُپلوںکے ڈھیرمیںسے کچھ اُپلے اپنی طرف لڑھکاتی ہے اورپھراپنے کھردرے ہاتھوںمیںایک اُپلاپکڑکراسے دوٹکڑوںمیںبانٹ دیتی ہے۔ چولھے میںایک ٹکڑادائیںاورایک بائیںرکھ کرخاشاک کے تنکوںکوان سے اُوپراٹھاتی اورپھراپنی قمیص کے پلوسے ہوادینے لگتی ہے۔ آگ سے پہلے دھواںاٹھتاہے اورکچھ ہیولے سے بن جاتے ہیں…اُس کے تصورمیںوہی موہنی صورت پھرجاگ اٹھتی ہے۔وہ دیکھتی ہے کہ من موہ لینے والایہ خوش شکل چہرہ اس کی چھاتیوںسے ٹکراتا ہے اوروہ اُس کا مانوس لمس جب اپنے سینے پرمحسوس کرتی ہے توایک دم سے پھربدک کرچولھے میں آگ ٹھیک کرنے لگتی ہے…یہ اس کامعمول ہے جب بھی کبھی وہ کام سے فارغ ہوتی ہے یاپھرزیادہ اُلجھ جاتی ہے تویہ چہرہ اوراس کالمس اسے ستانے لگتے ہیں۔
بارش تھم چکی ہے مگرتوت کے پھیلے ہوئے ہاتھ کی اُنگلیاںابھی تک اس کے اثر میں ہیں… ان انگلیوںسے قطرہ قطرہ پانی صحن میںٹپکتاہے۔بیٹھک سے اس کے سسرکے کھانسنے کی آوازآتی ہے تو یہ سلورکی تھالی میںسالن ڈال کرچنگیرمیںروٹیاںرکھتی ہے اورپھراس کے منوںبھاری قدم بیٹھک کی طرف اُٹھنے لگتے ہیں۔چارپائی پربیٹھے بوڑھے سسر کے سامنے کھانارکھ کرپانی لینے کے لیے واپس پلٹنے لگتی ہے توگرج دارآوازتحکمانہ اندازمیںگونجتی ہے:
''کبھی سلیقے سے بھی پکالیاکرو،غلہ ضائع کرتی رہتی ہو۔''
وہ خاموشی سے نکل کرٹپائی پرپڑے ہوئے کائی زدہ گھڑے سے مٹی کے بٹھل میںپانی ڈالتی ہے اور اسی خاموشی کے ساتھ جاکرسسرکے سامنے رکھ دیتی ہے۔بیٹھک کے کچے فرش پراپنے ٹوٹتے وجود کو احتیاط کے ساتھ رکھتی ہے…مباداکہیںکوئی جوڑالگ ہوکرزمین پرآن ہی پڑے!
''طفیل کافون آیاتھا؟''وہی گرج دارآوازدوبارہ گونجتی ہے۔
''نہیںبابا…''
''یہ موبیل بھی شیطانی کاآلہ ہے…ہروقت عزت لٹنے کادھڑکالگارہتاہے۔طفیل کاخیال نہ ہوتواسے پتھر کے اُوپررکھ کرپیس دوں۔''بوڑھایہ کہہ کرہاتھوںکے اشارے سے کھانے کے برتن اُٹھانے کاحکم دیتا ہے۔
ایک گرم انگارہ اس کے کانوںکوچیرتاہوادماغ تک پہنچ جاتاہے مگروہ اپنے چہرے سے کوئی تاثر ظاہر نہیں کرتی…جس احتیاط سے بیٹھی تھی اسی احتیاط سے اُٹھ کربرتن سمیٹتی اورباورچی خانہ میںگھس جاتی ہے۔اسی تھالی میںاپنے لیے سالن ڈالتی ہے اوروہیںننگی زمین پرکھانے کے لیے بیٹھ جاتی ہے… جوں ہی پہلالقمہ اس کے حلق سے اُترتااورہاتھ دوسرے نوالے کی طرف بڑھتاہے ،وہی خوش شکل اور معصوم چہرہ اس کی آنکھوںمیںاُترآتاہے…وہ بے دھیانی میںگم ہوجاتی ہے اورنوالہ اپنے منہ میں ڈالنے کی بجائے ہاتھ سامنے کی طرف بڑھادیتی ہے۔پھرکتنے ہی نوالے اُس نے من موہنی صورت والے معصوم کے منہ میںڈالے اوراپنی بھوک بھول گئی…
''چاچی!مرغیوںکوسالن کے ساتھ کھاناکھلاناکب سے شروع کیاہے؟''اس کے دیورکے منجھلے بیٹے نے چہکتے ہوئے پوچھا
''ہوں…نہیںتو''وہ کچھ سٹپٹاسی گئی۔جب اپنے سامنے بکھرے ہوئے نوالوںپرمرغیوںکوٹوٹ پڑتے دیکھاتوحیرت سے اس کامنہ کھلے کاکھلارہ گیا۔اُس کے میل چڑھتے رُخساروں پردوگرم آنسوبہہ نکلے تھے۔اپنی قمیص کی میلی اوردھوئیںمیںرچی ہوئی آستین سے اپنے چہرے اورآنکھوںکوصاف کرتی ہے اورپھرسے لقمے اپنے منہ میںڈالنے لگتی ہے۔
٭٭٭
صحن کے کچے فرش پرآٹے اورچوکھرکی خالی بوریاںبچھی ہوئی ہیںاوران پرمحلے کے بچے قبلہ رُخ بیٹھے قرآن شریف پڑھناسیکھ رہے ہیں…وہ جب سے یہاںبیاہ کر آئی ہے،اسی معمول سے بچے آرہے ہیں۔بارہ سال…!بارہ سال بہت ہوتے ہیں۔کئی بچوںنے قرآن پاک ختم کرلیاہے اور کئی لڑکیاںتوشادی کرکے اپنے گھروںکی بھی ہوگئی ہیں، بل کہ ان میںسے اکثرکے ہاںدودوایک ایک بچہ بھی پیداہوچکاہے…اوراب اس کے سامنے بیٹھی عاصمہ بھی قرآن مجیدختم کرنے والی ہے ، ٹھیک دوماہ بعداس کی بھی شادی ہوجانی ہے اور پھراس کے ہاںبھی خوب صورت چہرے اُتریں گے… احسن التقویم کہے گئے ننھے منھے انسان…وہ بھی انھی بوریوںپربیٹھ کراس سے اپناپہلاسبق لیں گے۔
محلے کی بوڑھی پھپھاکٹنی زہرہ ماسی کوآتے دیکھ کروہ اورزیادہ محویت سے بچوںکوپڑھانے لگتی ہے تاکہ زہرہ ماسی اسے مصروف جان کراُس کی دیورانی کے کمرے میں چلی جائے۔ وہ محلے کی ایسی بوڑھیوںسے ہمیشہ چڑکھاتی ہے…یہ بوڑھیاںجب بھی آتی ہیںاس کے غم میںاضافہ کرجاتی ہیں اور پھرخوش شکل چہرہ اوراس کالمس اسے ستانے لگتے ہیں۔ زہرہ ماسی اپنے چہرے پرمصنوعی مسکراہٹ پھیلائے اسی کے پاس آبیٹھتی ہے اورآتے ہی پہلاتیراس کے سینے میںپیوست کردیتی ہے۔
''اری…کیوںان پرجان گالتی ہے؟یہ کم بخت مارے کون ساتیرے بطن جنے ہیں…کچھ اپنی فکر کر ۔ کب تک دوسروںکے بچوںکے لیے مشقت اٹھائے گی۔میںتوکہتی ہوں اس بار طفیل چھٹی آئے تو اس کے ساتھ کسی سیانے ڈاکٹرکے پاس چلی جا…بھرلے جھولی اپنی۔''
زہرہ ماسی کاسبق طول پکڑنے لگاتواس نے بات کاٹتے ہوئے کہا
''ماسی یہ سب بچے میرے ہی توہیں…میںبھی جَن لوںگی ،کون سابوڑھی ہوگئی ہوں۔توجااند ر شیداں بیٹھی ہے،اس سے گل کتھ کرمیںذراسبق پڑھالوں۔''
ماسی توتیرپھینک کرچلی گئی مگرآنے والی ساری گھڑیاںاسے بے تاب کررہی تھیں…آنکھوںکابندنہ توڑ سکنے والے خون کے قطرے اس کے حلق کے راستے سے دل میںاُترگئے۔
''لوگوںکودوسروںکی فکرکیوںہوتی ہے؟کیوںیہ لوگ مجھے آرام سے جینے نہیں دیتے… کیوں یہ مجھے بانجھ ہونے کااحساس دلاتے رہتے ہیں؟''وہ سوچتی ہے اورپھر مسلسل کرب کی آندھیوں کی لپیٹ میںآجاتی ہے… تب اچانک اس کی دیورانی شیداںاس کے سامنے آلتی پالتی مارکربیٹھ جاتی ہے۔شیداںپھرامیدسے ہے اوراس کے ہاںیہ ساتواں بچہ ہوگا۔نہ چاہتے ہوئے بھی اس کی نظریں شیداںکی چھاتیوںاورپیٹ کاطواف کرنے لگتی ہیں…سینے کے اُبھاربھرے ہوئے ہیںاورا ن کے سرے بھیگ چکے ہیں۔دوایک روز میں شیداںپھرماںبن جائے گی…وہ سوچتی ہے وہ کیوں نہیںبن سکتی ماں؟اس کی چھاتیاںکیوںدودھ سے نہیںبھرتیں،اس کی چوٹی کوئی بچہ کیوں نہیں کھینچتا؟ … وہ یوںمحسوس کرتی ہے جیسے غم سے اس کاسینہ پھٹ جائے گااوروہ وجودجوایک عرصہ سے اس نے سنبھال کررکھاہے لیرلیرہوجائے گا۔اس کا جسم چھیتڑوںمیںبدل جائے گا…شیداںکی آوازکسی اندھے کنویںسے آرہی تھی:
''ماسی ٹھیک کہتی ہے؛طفیل آجائے تواپناچیک اَپ کراہی لے…صادق بھائی کے ہاںبھی تو اولاد نہیں ہو رہی تھی،انھوںنے علاج کرایاتواب ماشاء اللہ ان کی پیاری سی بیٹی ہے''
''شیداں!بس کر…''
یہ کہہ کروہ اپنی جگہ سے اُٹھتی ہے اوراپنے خستہ اورکچے کمرے میںپڑی بان کی چارپائی پرآکرڈھیرہوجاتی ہے۔اس کے دماغ پرمختلف تصویریںرقص کررہی ہیں…اپنے سسرکی کڑوی کسیلی تو وہ برداشت کرہی رہی تھی اب پورے گاؤںکے منہ پرہاتھ کون رکھے…ہرکوئی اس کے خالی آنگن میںجھانکتااوراسے مشورے دیتاہے۔اب توطفیل کے لیے دوسری لڑکی تلاش کی جا رہی ہے تاکہ اس کے لوٹتے ہی دوبول پڑھالیے جائیں…باباکہتاہے :
''بانجھ شجرسے امیدلگاناکم عقلی اورنادانی ہے…طفیل ماشاء اللہ وجیہ ہے،گبرواورجوان ہے۔کب تک اس شنڈعورت کاانتظارکرے گا…پانی سرسے گزرجائے گاتوہاتھ کچھ نہیں آئے گا۔''
اسے یوںمحسوس ہورہاہے جیسے اس کے دماغ کی رگیںچٹخ رہی ہوں،آنکھوںسے آنسوؤںکی جگہ خون جاری ہواوردل کی جگہ پارہ پڑاہو…اچانک سیلولرفون کی گھنٹی بجتی ہے اور وہ اپنے اوسان بہ حال کر کے کارنس سے فون اٹھاکررندھی ہوئی آوازمیں''ہیلو''کہتی ہے۔دوسری طرف طفیل ہے…اس کا مجازی خدا؛جولوگوں کی نظرمیںروزی کمانے کے لیے عرب ممالک کی خاک چھان رہا ہے۔وہ اپنی بیوی کو تنہا چھوڑکرنہیںجاناچاہتاتھا…مگر…اس کے گاؤںکے لڑکوںاوربوڑھیوںنے اس کاجینادوبھر کر رکھا تھا۔ ہرکوئی اس کی مردانگی پرشک کرتا تھا یا پھراسے دوسری شادی کے لیے اُکساتاتھا۔وہ لفظوںکی تلواروںسے بچنے کے لیے اپنی پیاری محبوبہ بیوی کے ہجرکی سزاکاٹ رہاتھا…دس دن بعدوہ اپنے گھرلوٹ آئے گا۔
وہ اپنے سن ہوتے وجودمیںزندگی کی حرارت محسوس کرتی ہے…غم اورخوشی نے مل کرایک ایسی گھڑی تشکیل دی ہے جواس سے پہلے اس پرنہیںاُتری تھی۔طفیل کے آنے کی خوشی ہے تو اس کے چھن جانے کاخوف بھی موجودہے۔اگرطفیل نے دوسری شادی کرلی تواس کی زندگی بالکل ہی بے رنگ ہو جائے گی،بے لطف وغارت…
اس نے اپنے منہ پرہاتھ پھیراتویوںمحسوس ہواجیسے کسی کھردری اورسخت لکڑی سے ہاتھ چھواہو…یہ احساس اسے پہلے توکبھی نہیںہواتھایاپھرشایداُس نے کبھی اپنے رخسارچھوئے ہی نہیںتھے اورچھوتی بھی کس لیے …جب سراہنے والاہی موجودنہیںتھا۔اب جووہ آرہاہے تواسے اپنے سراپے کی فکر ہوئی۔
اُسے اپنے کالج کے دن یادآنے لگے جب وہ بن سنورکراپنی سکھیوںکے ہم راہ اپنے قصبے کے کالج جایاکرتی…کالج کے راستوںپرلڑکے تاکنے کے لیے بیٹھے ہوتے اور یہ اپنی ہمجولیوںکی بھیڑمیںسب سے نمایاںہوتی۔طفیل سے اس کی مڈبھیڑاسی زمانہ میںہوئی تھی۔مارچ کااخیرتھااوریہ کسی عزیزکے ہاںشادی پرموجودتھی… تب طفیل سے اس کی آنکھیں چارہوئیںاوردونوں ایک دوسرے کو دل دے بیٹھے۔بہت منت سماجت کے بعداس کے گھروالوںنے رشتہ دینے پررضامندی ظاہرکی تھی۔اگرچہ دونوںخان دانوںمیںپہلے سے رشتہ داریاںموجودتھیںلیکن اُس کاخان دان طفیل کے خان دان کی نسبت نہ صرف خوش حال تھابل کہ زیادہ ترلوگ پڑھے لکھے تھے۔شادی کادن مقرر ہوا اور یہ طفیل کے خستہ اورکچے مکان میںاُترآئی جواس کے لیے جنت سے کم نہیںتھا…جب ہم سفرچاہنے والا اور جان چھڑکنے والاہوتوپھرسفرکی صعوبتیںکہاںنظرآتی ہیں؟وہ ایک دوسرے کی رفاقت میںچلتے رہے چلتے رہے ،چلتے رہے…ایک سال،دوسال،تین ،چار…چھ اورپھرآٹھ سال گزرگئے۔بہ ظاہر دونوںمیںکوئی نقص نہیںتھامگرپھربھی اس کی گودخالی تھی۔پہلے توطفیل اسے تسلیاں دیتا ، اس کا دل بہلاتا پھروہ خودبھی مایوس ہوگیا…اگرکبھی وہ کسی ڈاکٹرکے پاس جانے کی بات کرتی تووہ ٹال جاتا۔ یوں اس کی خواہش اس کے اندرہی ٹوٹتی بنتی رہتی۔اب توطفیل بھی چار سال ہوئے اُس سے دُوررہنے لگا تھا…سارے غم،طعنے اورجھڑکیںاس اکیلی جان کے لیے رہ گئے تھے مگروہ ثابت قدم رہی ۔اس لیے کہ اس کاخاوندآج بھی اس سے بے پناہ محبت کرتاہے…لا محدوداورناقابل یقین حدتک۔یادوںکے جھروکوںمیںجھانکنے سے اسے نظرآیاکہ طفیل جب پچھلی بارچھٹی آیاتھاتواس نے اپنے باباکے سامنے دوسری شادی سے صاف انکارکرتے ہوئے کہاتھا:
''لائبہ سے شادی میںنے اولادکی خاطرنہیںکی…کیاہوااگراولادنہیںہوئی تو،میںدوسری شادی نہیں کروں گا۔''
طفیل کے اس کورے جواب سے وہ کس قدرسرشارونہال ہوئی تھی…اس کے دل کی دھڑکن سانس کی لے پرمسلسل رقص کرتی رہی اوروہ اپنے آپ میںسمٹتی اورپھیلتی رہی۔اسے یقین تھا کہ اس کے گھرمیںنقب کوئی نہیںلگاسکتا…لیکن اب ایک بارپھرگھرمیںطفیل کی دوسری شادی کی باتیںپھیلی ہوئی ہیں۔
٭٭٭
بہت خوشامدکرکے وہ طفیل کوڈاکٹرکے پاس جانے کے لیے رضامندکرچکی ہے…دونوں ڈاکٹر کے پاس جائیںگے اوراپناعلاج شروع کروائیںگے۔ان کے ہاںبھی بچہ پیداہوگا…مٹی کے کچے صحن میںجب وہ چوکڑیاںبھرے گاتویہ خوشی سے نہال ہوجائیںگے…اماںباواکی صدائیں جب باباسنیںگے تووہ بھی لائبہ کوجھڑکناچھوڑدیںگے اوریہ کچاا ور خستہ مکان ایک بارپھرگھربن جائے گا … ڈاکٹرنے دوائیںلکھ دی ہیںاورطفیل رپورٹس بھی لے آیاہے۔خوشی خوشی دوائیںکھائی جارہی ہیں اور دونوںایک دوسرے پرجان چھڑک رہے ہیں…لیکن طفیل نے توواپس جاناہے۔
لائبہ ایک بارپھرتنہاہے اورکمرے کاسناٹااسے کاٹ کھانے کودوڑتاہے،طبیعت میں اضطراب اوربے کلی بھی سواہوگئی ہے۔جوخوشی اورراحت تھی وہ توجانے والے کے ساتھ چلی گئی…اب وہی دن رات ہیںکہ جوتھے ۔گھرمیںبھی چہ میگوئیاں جاری ہیں…آنے والے مہمان کی باتیںہورہی ہیں۔باباکارویہ پہلے سے بہترہے…دیورانی کے لہجے میںبھی تلخی نہیںہے اورزہرہ ماسی اپنے مشورے کے بارآورہونے پرچھاتی پھیلائے پھرتی اورکہتی ہے:
''میںنہ کہتی تھی،علاج کراؤعلاج!جھولی بھرجائے گی…دیکھناکہیںاس خوشی کے موقع پرمجھے بھول نہ جانا۔''
دن گزرتے جاتے ہیںاورگھروالوںمیںانتظارکی طاقت بھی کم پڑتی جارہی ہے…باباچاہتاہے طفیل کو جلدخوش خبری سنائی جائے …مگروقت ہے کہ بھاری سل تلے آیاہواہے۔
٭٭٭
لائبہ اپنے میکے میںموجودہے…اس کی بہن عارفہ جوپہلے ہی دوبچوںکی ماںہے ایک اور بچے کوجنم دینے جارہی ہے۔اتفاق ہی نہیںبہت بڑااتفاق ہے کہ ایک ہی شب کو دونوںبہنوںکے ہاں بچے پیداہوئے اوردونوںمرد۔بابایہ خبرسن کربہت خوش ہوئے ہیں…اب لائبہ اپنے طفیل کے سامنے سرخ روہوجائے گی۔اب مکان گھرمیںبدل جائے گا، خوشیاں لوٹ آئیںگی۔نیامہمان صحن میںدوڑتاپھرے گاتوکچی مٹی کی سوندھی خوش بوسانسوںکومعطرکرجایاکرے گی…شادی کا تیرہواں سال گزرگیاتواس کی گودگرم ہوئی ۔ گاؤں بھر میں قدرت کی اس مہربانی کاتذکرہ جاری ہے… مٹھائیاںبٹ رہی ہیں،مبارک باددیں جاری ہیں…لائبہ کے لیے پریشانی یہ ہے کہ ننھامہمان اس کا دودھ نہیںپیتااس لیے مجبوراً اسے کچا دودھ پلاناپڑرہاہے…خیرکیاہوا؟بہت سی مائیںاپنے شیرخوار بچوں کوگایوںاوربھینسوںکادودھ پلاتی ہیں۔یہ کوئی اَن ہونی نہیں۔
اب وہ خستہ اورکچے گھرمیں اپنے بیٹے سہیل کوگودمیںلیے ہوئے ہے۔بابانے اپنے پوتے کا نام سہیل رکھتے ہوئے فخرسے کہاتھا:
''اب میںدوبارہ جوان ہواہوں…سہیل ہوبہ ہوطفیل کی مانندہے۔''
سیلولر فون کی گھنٹی بجتی ہے…لائبہ خوش ہے کہ وہ طفیل کو مردثابت کرچکی ہے۔اب کوئی اسے شنڈاوراس کے خاوندکوبانجھ نہیںکہہ سکتااورنہ ہی کوئی طفیل کودوسری شادی کامشورہ دے سکتا ہے۔سہیل جب دنیا میں آیااُسی وقت طفیل کوبتادیاگیاتھا…مگرلائبہ کے ماںبننے کے بعداس کی پہلی گفتگوہونے والی تھی۔ مٹی کی کارنس سے فون اُٹھاکرلائبہ نے اپنے کان سے لگایا۔ آج اس کے لہجے میںسارے جہان کی شیرنیاںاُترآئی تھیں…وہ چاہتی تھی کہ ساری مٹھاس طفیل کے کانوںمیںگھول دے۔اُس نے ایسا ہی کیا،بہت اہتمام سے نپے تلے انداز میں جملے اداکیے مگرطفیل کالہجہ آگ برسارہاتھا۔یوںمحسوس ہوتا تھا جیسے کوئی گرم سیسہ لائبہ کے کانوںمیںانڈیل رہاہے اوروہ گرم سیسہ اس کے دماغ کوبے کارکرکے چھوڑے گا:
''میںنے کہاتھانالائبہ!تمھیںاولادجننے کی مشین سمجھ کرمیںنہیںلایاتھا…میںنے تم سے محبت کی تھی ، تمھیںپوجاتھا۔کیاہوتااگرتمھارے ہاںاولادنہ ہوتی۔میںسہیل کواپنابیٹاکیسے مان لوںجب کہ ڈاکٹرز نے مجھے بتایاتھاکہ میںساری عمرباپ نہیںبن سکتا…پھرتم مجھے کیوںکردھوکادے سکتی ہو؟اپنی حرام اولاد میرے سرمت تھوپو…اورمیری زندگی سے نکل جاؤ۔ میں تمھیںطلاق دیتاہوں… طلاق… طلاق …''
''طفیل…طفیل…یہ کیاکیاتم نے،مجھے جیتے جی ماردیا…میری بات توسنتے۔''
بندسیلولرپروہ چیخی اورپھراُسے زمین پرپٹخ دیا۔
''طفیل…تم نے مجھ سے چھپایاکہ تم باپ نہیںبن سکتے لیکن میںنے رپورٹ پڑھ لی تھی…میںنے گلہ کیانہ ہی رنجیدہ ہوئی کیوںکہ میںنے بھی تمھاری پوجاکی ہے،تمھیںاپنی ذات سے زیادہ چاہا ہے…میںجانتی تھی کہ تم کبھی باپ نہیںبن سکوگے لیکن میںتمھارے ہجرکی سولی پرچڑھی رہی، تمھیںسوچتی اوریادکرتی رہی۔لیکن تم نے مجھے حرام کارکہہ کرمیری توہین کی ہے،مجھے زمانے میں رسوا کر دیاہے۔تم کیاجانومحبت کیاشے ہے…اورپوجاکسے کہتے ہیں۔''
توت کے پھیلے ہوئے ہاتھ کی مخروطی انگلیاںبانجھ ہوچکی ہیںاوراُن پراٹھنے والے ابھار ظاہر ہونابھول گئے ہیں۔دھوئیںمیںسے خوش شکل معصوم کاچہرہ معدوم ہو گیا ہے۔ سہیل کی موجودگی میں بھی لائبہ کی گودبرف سے ٹھنڈی ہے اوراس کالمس ہراحساس سے عاری ۔جس کے لیے اس نے یہ سب کچھ کیاوہ اسے طلاق دے چکاہے…اب وہ میکے میںہے اور بان کی کھری چارپائی پرسرکھولے رو رہی ہے۔اس کی بہن عارفہ چارپائی کی پائنتی پر بیٹھی اُسے دلاسے دے رہی ہے اورعارفہ کی جھولی میںسہیل مضطرب پڑاہے۔اُس کااپناسہیل جو اس نے لائبہ کی زندگی میںخوشیاںبکھیرنے کے لیے اُس کی گودمیںڈالاتھا۔
٭٭٭